سکون

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May
یک سیاح میکسیکو کے ایک ساحلی گاﺅں میں تفریح کیلئے پہنچا اور سیر کیلئے ایک کشتی میں سوار ہوگیا، کشتی جب گہرے پانی میں پہنچی تو ملاح نے کشتی روک دی،ایک چھوٹا سا جال نکالا، اسے کھولا اور پانی میں اچھال دیا۔ سیاح بڑے انہماک سے اسے ایسا کرتے دیکھ رہا تھا، بولا ” یہ کام بہت محنت طلب ہے، تم اس سے حاصل کیا کرتے ہو؟“ ملاح مسکرایا اور بولا ” بہت کچھ، اتنا کچھ کہ تم اندازہ نہیں کر سکتے“۔ سیاح نے ملاح کے میلے کچیلے کپڑوں کی جانب نگاہ ڈالی اور پوچھا ” تم کتنا وقت جال پانی میں ڈالتے ہو“ ملاح بولا” کوئی پانچ چھ گھنٹے “ سیاح بہت حیران ہوا، بولا ” اتنا کم وقت لگاﺅ گے تو ڈھیر ساری مچھلیاں اور ڈھیر سارا پیسہ کیسے کماﺅ گے اور زندگی میں وہ سب کچھ کیسے حاصل کر سکو گے جس کی ہر انسان کو خواہش ہوتی ہے“ ملاح خاموشی سے سیاح کی بات سن رہا تھا، اس کی نظر جال پر تھی جو پانی کی بانہوں میں بچھا ہوا تھا، بولا ” یہ درست ہے کہ میں بہت زیادہ مچھلیاں ساتھ نہیں لے جا پاتا لیکن میں جتنا بھی کماتا ہوں یہ میری اور فیملی کی ضروریات کےلئے کافی ہے، ہم اس میں بہترین گزارا کر رہے ہیں، ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں لہٰذا یہ خوشیاں پانے کیلئے میرا اتنا ہی وقت بہت ہے جتنا میں دے رہا ہوں“ سیاح کے ماتھے پر حیرانی کی لہریں سر اٹھا رہی تھیں ملاح بولا ” میں سورج نکلنے سے پہلے اٹھتا ہوں، جال اٹھاتا ہوں اور پانی میں نکل جاتا ہوں،
جب سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے میں جال سمیٹنا شروع کر دیتا ہوں، مچھلیاں لیکر بازار جاتا ہوں، ان کے عوض معقول دام حاصل کرتا ہوںاور واپس آ جاتا ہوں، میری بیوی دروازے پر میری منتظر ہوتی ہے، اس دوران بچے سکول سے آ جاتے ہیں ،وہ بھی کھانے میں شریک ہو جاتے ہیں، ہم ہر روز لذیذ مچھلی بھون کر کھاتے ہیں، اس کا ذائقہ اور خوشبو للچا دینے والا ہوتا ہے، بچے مچھلی چاول کے ساتھ جبکہ میری بیوی اور میں تلوں والے نان اور پودینے کی چٹنی کے ساتھ پسند کرتے ہیں، شام کو ہم گاﺅں میں نکلتے ہیں، میں اپنے دوستوں کے ساتھ گٹار بجاتا ہوں، ہم ہر مرتبہ نئی دھنیں بجاتے ہیں ، کبھی کبھار ہم مقابلہ بھی کرتے ہیں اور جیتنے والے کو پول کر کے رقم دیتے ہیں اور اس رقم سے وہ ہم سب کی ایک شاندار دعوت کر تا ہے، رات کو ہم پانی کی دلکش لہروں کو دیکھتے ہیں، ان کی آوازیں مسحور کر دینے والی ہوتی ہیں،ہم دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں، کافی کے سپ لیتے ہیں اور تاش کھیلتے ہیں، اتنی دیر میں ہمارے بیوی بچے بھی آ جاتے ہیں، ہم سب مل کر خوشی کے گیت گاتے ہیں اور پھر گھر جا کر سو جاتے ہیں، ہماری یہی چھوٹی سی زندگی ہمارا سب کچھ ہے“ سیاح بولا، ”مگر میں تم سے متفق نہیں، میں امریکہ کی بہترین یونیورسٹی ہاورڈ سے کاروباری ڈگری لے چکا ہوں، میرا مشورہ مانو تو صبح سے شام تک مچھلیاں پکڑا کرو، اس طرح کچھ فالتو مچھلیاں بیچ کر اضافی پیسے کما لو گے اور ان اضافی پیسوں سے ایک بڑی کشتی خرید سکو گے“ ملاح نے بڑی بےتابی سے پوچھا ” بڑی کشتی، پھر، پھر کیا ہو گا؟“ سیاح بولا ” بڑی کشتی ہو گی تو جال بھی بڑا ہو گا اور جال بڑا ہو گا تو مچھلیاں بھی زیادہ آئیں گی اور زیادہ مچھلیاں آئیں گی تو تمہیں کہیں زیادہ رقم ملے گی اور تم اس رقم سے مزید ایک اور کشتی خرید لو گے اور ممکن ہے تمہارے پاس کشتیوں کا ایک بیڑہ تیار ہو جائے
، اس طرح تم ٹنوں کے حساب سے مچھلیاں پکڑو گے“ ملاح للچائی ہوئی نظروں سے بولا ” اچھا۔ اچھا ، پھر کیا ہو گا؟“ سیاح بولا ” پھر تم یہ گاﺅں چھوڑ دینااور میکسیکو شہر، لاس اینجلس یا پھر نیویارک جیسے بڑے شہر منتقل ہو جانا، وہاں ہیڈ آفس قائم کر لینا، تمہارے نیچے ڈائریکٹرز ا ور مینجر کی فوج ہو گی، تم مچھلیوں کی ایکسپورٹ شروع کر دینا اور کاروبار پوری دنیا میں پھیلا دینا یوں تم ایک کامیاب بزنس مین بن جاﺅ گے “ ملاح سر جھکا کر سنتا رہا، کچھ دیر خاموش رہا اور بولا ” لیکن اس میں وقت کتنا درکار ہو گا؟“ سیاح بولا ” کوئی بیس پچیس سال“ ملاح نے پوچھا ” اور اس کے بعد کیا ہو گا“ سیاح ہنستے ہوئے بولا، ” تمہاری کمپنی کے شیئرز جاری ہوں گے جائیں، لوگ یہ شیئرز خریدیں گے اور تم یکدم زمین سے آسمان پر پہنچ جاﺅ گے، تم بلینئیر بن جاﺅ گے“ ”بلینئیر!!“ملاح نے چیخ کر پوچھا ، سیاح نے جواب دیا ” ہاں بلینئیر، ایک معمولی فشر مین سے امریکہ کا بلینئیر“ ملاح بولا ” اچھا، تو اس کے بعد کیا ہو گا“ سیاح بولا ” اس کے بعد تم ریٹائرہو جانا اور کسی دریا کے پاس کسی چھوٹے سے پرسکون گاﺅں میں رہائش کر لینا،رات کو دیر سے سونا، بچوں کو وقت دینا، بیوی کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنا، دوستوں کے ساتھ آﺅٹنگ کرنا، گپ شپ کرنا اور لائف کو بھرپور انجوائے کرنا“ ملاح پر اعتماد لہجے میں بولا ” تو تمہارا کیا خیال ہے میں اس وقت کیا کر رہا ہوں“ یہ سن کر سیاح کا جوش ماند پڑ گیا، ملاح بولا جو کچھ مجھے بیس پچیس سال بعد ملے گا وہ آج بھی میرے پاس ہے تو پھر میں پچیس سال کیونکر ضائع کروں
یہ کہانی میں نے بچپن میں پڑھی تھی لیکن آج بھی بالکل نئی لگتی ہے، اس کہانی کے دو زاویے ہیں، ایک، انسان کو بہت زیادہ حرص اور مال و دولت کی تمنا نہیں رکھنی چاہیے، انسان کی اصل دولت اس کا دلی سکون ہے، میں سمجھتا ہوں آ ج کے دور میں اگر کوئی شخص رات کو بغیر نیند کی گولی کے سو جاتا ہے، وہ بیوی کو ٹائم دیتا ہے، بچوں کے ساتھ بھرپور وقت گزارتا ہے، دوستوں یاروں کی محفلوں اور ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے اور اس کے پاس دو وقت کی روٹی، تن پر کپڑا اور رہنے کو چھوٹی سی کٹیا موجود ہے ، وہ بیماریوں سے بچا ہوا ہے، وہ تھانے، کچہری اور چوروں اور ڈاکوﺅں سے محفوظ ہے اور اس کی اولاد فرمانبردار اور لائق ہے تو ایسا شخص ایسے اُن ہزار ارب پتیوں سے بہتر ہے جو رات کو نیند کی گولیاں کھاتے ہیں لیکن سو نہیں پاتے، جو ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کی شکلیں کئی کئی دنوں بعد دیکھتے ہیں، جنہیں علم ہی نہیں ہوتا ان کی اولاد پڑھتی کیا ہے، کرتی کیا ہے اور اس کے دوست اور اس کے شوق کیسے ہیں اور یہ لوگ جو تھانوں، عدالتوںاور نیب کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، جنہیں انجان بیماریوں نے گھیرا ہوا ہے، جنہیں وسوسے اور خدشات چین نہیں لینے دیتے، جو دس دس تالے لگانے کے باوجود راتیں جاگ کر گزارتے ہیں اور جو اپنی دولت کی حفاظت کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن صحیح معنوں میں ایک پل کا بھی چین اور آرام نہیں پاتے ، یہ دراصل ناکام ترین لوگ ہیں اور کسی نے سچ کہا تھا، جو انسان تین چیزوں سے محروم رہے وہ دنیا بھر کی دولت حاصل کر لے وہ غریب ہی رہتا ہے، یہ تین چیزیں، صحت، سکون اور فرمانبردار اولاد ہیں اور اس کہانی کا دوسرا زاویہ بھی ہے، انسان اگر بہت زیادہ محنت کرے، بہت زیادہ دولت حاصل کرے اور اس دولت کو کاروبار میں لگائے تو یہ بھی بہت بڑی نیکی ہوتی ہے، اگر کوئی انسان ہزاروں خاندانوں اور لاکھوں لوگوں کو روزگار دے دیتا ہے، ان کا چولہا جلاتا ہے تو یہ بھی بہت عظیم کام ہے، لیکن یہ کام ہر کسی کے بس کا نہیں، ہر کسی کی قسمت کا ستارہ چمکتا بھی نہیں لہٰذا قدرت نے ان دونوں زاویوں کے درمیان ایک بیچ کا راستہ بھی رکھا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان جس شعبے میں بھی ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کی چوٹی پر جانے کیلئے پورا زور لگائے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے اور اگر اسے اتنی کامیابی نہیں ملتی تو پھر اسے مایوسی، ناشکری اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ محنت جاری رکھتے ہوئے اپنی چھوٹی سی لائف کو اسی طرح انجوائے کرنے کا سلیقہ سیکھ لینا چاہیے جس طرح میکسیکو گاﺅں کا یہ ملاح انجوائے کر رہا ہے۔ کاش ہماری زندگی میں بھی ایسا ہی سکون آ جائے ۔
 
  • Like
Reactions: star24
Top