راجہ داہر کون تھا ؟ وہ سندھ کا بادشاہ کیسے بنا ؟ انتہائی دلچسپ رپورٹ

  • Work-from-home

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
راجہ داہر سے اس حوالے سے ہم سب واقف ہیں کہ اسے شکست دے کر محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا۔ لیکن راجہ داہر کون تھا؟ وہ کیسے سندھ کا حکمران بنا اس کے پیچھے کئی دلچسپ داستانیں ہے۔ آج اسی داستانوں کو ہم نے تاریخ کے درس کا عنوان بنایا ہے۔

warr.jpg


کم و بیش وہ علاقے جن پر آج پاکستان مشتمل ہے، یہ ’’سندھ‘‘ کہلاتا تھا۔ اس پر ایک بدھ راجہ ساہسی کی حکومت تھی۔ راجہ ساہسی کا ایک ہندو برہمن وزیر تھا، جس کا نام دیوان رام تھا۔ اس نے ایک اجنبی ہندو نوجوان سے متاثر ہو کر اسے اپنا نائب مراسلات (جدید معنوں میں سیکریٹری) رکھ لیا۔ ایک دفعہ راجہ ساہسی نے دیوان رام کو خط لکھنے کے لیے بلوایا۔ دیوان رام موجود نہیں تھا، اس لیے اس ہندو نوجوان، جس کا نام ’’چچ‘‘ تھا، کو جانا پڑا۔
راجہ ساہسی، نوجوان چچ کی قابلیت سے بہت متاثر ہوا اور اسے نائب وزیر بنا لیا۔ کچھ دنوں کے بعد دیوان رام فوت ہو گیا اور چچ نے اس کی جگہ لے لی۔ ایک دن چچ کو راجہ نے ایسی جگہ بلایا جہاں اس کی رانی بھی موجود تھی۔ چچ کی خوبصورتی اور خوش گفتاری سے رانی بہت متاثر ہوئی اور اس نے اپنے ذاتی اور رازدار خادم کے ذریعے سے چچ کو محبت کا پیغام بھجوایا۔ چچ نے کہا کہ وہ راجہ سے غداری نہیں کر سکتا،

رانی نے کہلا بھیجا کہ ہم تمھارے جذبات کی قدر کرتے ہیں لیکن تم کم ازکم روزانہ محل میں آکر اپنی صورت ہی دکھا جایا کرو۔ چچ اس پر مان گیا۔ اس دوران چچ پر راجہ کا اعتماد بہت بڑھ چکا تھا۔ وہ بیمار بھی ہو گیا تھا اور سلطنت کے اہم معاملات میں وہ چچ ہی کے مشورے کو آخری سمجھتا۔ انھی دنوں جب راجہ کی بیماری مزید بڑھ گئی اور اس کے بچنے کی اُمید نہ رہی تو ایک روز رانی نے چچ کو بلایا اور کہا کہ تمھیں تو معلوم ہے کہ راجہ کا کوئی وارث نہیں، اس لیے اس کے مرتے ہی میرے مخالف مجھے قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیں گے لیکن اگر تم ہمت سے کام لو تو میرے سمیت تخت وتاج کے مالک بن سکتے ہو۔
اور چچ نے ہمت کرنے کا ارادہ کر لیا۔
چچ نے رانی، جس کا نام سوھنی تھا، سے کہا یقیناًآپ کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہو گا جس کی وجہ سے آپ نے مجھ سے یہ بات کی ہے۔ تب رانی سوھنی نے کہا:’’تم پچاس زنجیروں اور بیڑیوں کی تیاری کا حکم جاری کرو۔ پھر انھیں رات کو خفیہ طریقے سے گھر کے اندر لاکر چھپا دو تاکہ ہم اسے ضرورت پڑنے پر استعمال کرسکیں‘‘۔
چنانچہ چچ کے حکم سے بھاری زنجیریں اور بیڑیاں تیار کی گئیں اور محل کے اندر لا کر چھپا دی گئیں۔ جب بادشاہ کے آخری لمحات آن پہنچے تو معالجین جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ رانی سوھنی دیوی نے انھیں مزید کچھ وقت محل میں رہنے کو کہا۔ ساتھ ہی رازدار نوکروں کے ذریعے سے بادشاہ کو محل کے پچھلے حصے میں پہنچا دیا تاکہ شہر میں کسی کو پتا نہ چلے کہ رائے ساہسی مر چکا ہے۔ پھر اس نے اپنے وفادار سپاہیوں کی بھاری تعداد کو محل میں بلوا لیا۔ اس کے بعد بادشاہ کے تمام قریبی عزیزوں اور تاج وتخت کے دعوے داروں کو ایک ایک کر کے یہ کہہ کر بلوایا کہ بادشاہ کی طبیعت اب بہتر ہے اور وہ ان سے مشورہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک دو یا چند افراد کے گروپوں کی صورت میں آتے اور رانی کے وفادار انھیں زنجیروں سے جکڑ دیتے۔ پھر اس نے بادشاہ کے غریب اور نظرانداز شدہ رشتہ داروں کو بلایا اور کہا کہ بادشاہ اپنے فلاں فلاں رشتے دار سے ناراض ہے اور انھیں زنجیروں سے جکڑوا دیا گیا ہے۔ اگر تم اسے قتل کر دو تو اس کی حویلی اور جائیداد پر قبضہ کر سکتے ہو۔ اس طرح سب نے اپنے اپنے دُشمنوں کو قتل کیا اور ان کے گھر بار جائیداد مال مویشی اور دولت کے مالک بن گئے۔ یوں ایک رات میں چچ اور سوھنی دیوی نے اپنے اکثر مخالفین کو ختم کر دیا۔
اس کے بعد تمام وفادار پیروکار اور وابستگان اور بادشاہ کے غریب رشتے دار جو، اب سردار بن چکے تھے اور جنھوں نے اس قتل میں حصہ لیا تھا، محل کے سامنے قطاریں بنا کر اسلحہ سے لیس ہو کر کھڑے ہو گئے۔ تخت کو خوب اچھی طرح سجایا گیا۔ ملکہ نے ایک وزیر ’’بدھی مان‘‘ سے کہا کہ مصاحبوں اور ارکانِ حکومت سے کہو کہ مہاراج کی طبیعت اب بہتر ہے اور بیماری دور ہو رہی ہے لیکن انتظامی گڑبڑ سے جو صدمہ انھیں ہوا ہے، اس کی وجہ سے وہ درشن نہیں دے سکتے اور عوامی معاملات کو نمٹا نہیں سکتے۔ لہٰذا اُنھوں نے وزیر چچ کو اپنا قائم مقام مقرر کیا ہے تاکہ وہ مہاراج کے نام پر امورِ سلطنت کو چلائیں۔ تمام امراء اور عمائدین نے اطاعت میں سر جھکا دیا اور اپنی پیشانیاں زمین پر رکھیں اور کہا کہ وزیر چچ سے زیادہ اہل اس رُتبے کا اور کوئی نہیں۔ تب رانی سوھنی دیوی نے چچ کو ہیرے جواہرات سے مرصع لباسِ شاہانہ پیش کیا اور اسے تخت شاہی پر بٹھایا۔ ساتھ ہی تاج شاہی اس کے سر پر رکھا۔ پھر رانی نے حکم دیا کہ وزیر کا دوبارہ انتخاب کیا جائے۔ اس کے علاوہ تمام جاگیریں نئے سرے سے دی جائیں۔ یوں رائے خاندان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا اور چچ برہمن عظیم سلطنت سندھ کا بادشاہ بن گیا۔ رائے ساہسی کا انتقال 632ء میں ہوا۔
چچ نے 632ء کو تخت سنبھالا تھا اور اس نے چالیس برس حکومت کی۔ اس واقعے کے چھ ماہ بعد راجہ ساہسی کے بھائی راجہ مہرتھ کو معلوم ہوا کہ اس کا بھائی مر چکا ہے اور ایک برہمن چچ نے سازش کر کے تخت پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس نے چچ پر چڑھائی کر دی۔ اروڑ کے قریب دونوں میں جنگ ہوئی۔ جنگ نے طول پکڑا تو راجہ مہرتھ نے چچ کو پیغام بھیجا کہ بہادر ہو تو آؤ میرے ساتھ دوبدو مقابلہ کرو، جو جیتے گا وہی تخت کا مالک ہو گا۔ چچ نے اس چیلنج کو قبول کیا لیکن گھوڑے کے بغیر مقابلے کی شرط لگائی۔ مہرتھ نے یہ بات مان لی۔ دونوں گھوڑوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے قریب آئے۔ چچ نے اپنے سائیس سے کہا کہ تم گھوڑے کو آہستہ آہستہ میرے پیچھے لاتے جانا۔ ادھر مہرتھ گھوڑے سے اُتر کر نپے تلے تیز قدم اُٹھاتا چچ کی طرف بڑھا جو ابھی آہستہ چل رہا تھا اور اس کے پیچھے اس کا گھوڑا بھی غیرمحسوس طریقے سے آرہا تھا۔ جب چچ نے دیکھا کہ مہرتھ اب اس کی پہنچ میں ہے تو اچانک پلٹا ۔۔۔ گھوڑے پر اُچھل کر بیٹھا اور چند لمحوں میں مہرتھ کا سر قلم کر ڈالا۔ یوں 633ء میں چچ بلاشرکت غیرے پورے سندھ کا حکمران بن گیا۔ اس نے رانی سوھنی سے باقاعدہ شادی کر لی۔ اس نے یہ شادی اس وقت کے اصولوں کے خلاف کی تھی کیونکہ برہمن اپنے مذہب کے مطابق کسی بیوہ سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔
چچ نے اس کے بعد بھی کئی شادیاں کیں لیکن اس کے دونوں بیٹے رانی سوھنی ہی سے پیدا ہوئے۔ اس کی بیٹی ’’بائی رانی‘‘ کے متعلق گمان ہے کہ وہ ایک جاٹ یا راجپوت عورت سے تھی۔ چچ کا بڑا بیٹا جے سینہ تھا اور اس سے چھوٹا داہر۔ پیدائش کے وقت نجومیوں نے بتایا کہ دونوں بیٹے بادشاہ بنیں گے ۔
چچ نے اس کے بعد شمالی سندھ، پنجاب، سیوستان، بودھیہ، کرمان اور مکران کے علاقے بھی فتح کر لیے۔ برہمن آباد کو فتح کرنے کے بعد اس نے حکمران اگھم لوہانہ کی بیوہ سے شادی کر لی۔ اس سے اس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس نام ’’ بائی رانی ‘‘ رکھا گیا۔ نجومیوں نے اس بچی کے متعلق بتایا کہ جو کوئی ’’بائی رانی‘‘ کا شوہر ہو گا وہ پورے سندھ کا بادشاہ ہو گا۔ اس پیش گوئی کو البتہ راز میں رکھا گیا۔
مستقبل میں کسی بھی قسم کی بغاوت کو روکنے کے لیے چچ نے یہ اقدام کیے:چچ نے برہمن آباد کے پہلے حکمران خاندان لوہانہ اور دوسرے اہم خاندان ’’جاٹ‘‘ کا سماجی رُتبہ شودروں کے برابر کر دیا۔ ان پر لازم تھا کہ وہ ریشمی لباس نہ پہنیں۔ گھوڑے کی سواری بغیر زین کے کریں گے۔ گھر کے باہر ہمیشہ ننگے سر اور ننگے پاؤں رہیں گے۔ گھروں سے باہر اپنے ساتھ کتے رکھیں گے تاکہ ان کی پہچان رہے۔ برہمن آباد کے حکمران کو لکڑیاں فراہم کریں گے۔
جاٹوں کے بارے میں واضح رہنا چاہیے کہ یہ اصل میں کسان تھے۔ اس لیے انھیں شودروں سے بہتر مقام ’’ویش‘‘ حاصل تھا لیکن جب پاکستانی علاقوں میں سے غیرملکی اقتدار ختم ہوا تو بڑے بڑے جاگیردار اور دوسرے اہم عہدے دار حکمران بن گئے۔ ان لوگوں نے، جنھوں نے اپنے آپ کو راجپوت یعنی راجوں کے بیٹے کہلایا، کسانوں یعنی جاٹوں کو بہت دبا کر رکھا تاکہ وہ انھیں ٹیکس بھی دیتے رہیں اور بغاوت بھی نہ کرسکیں۔ راجپوت ان جاٹوں سے کس حد تک ظلم کرتے تھے، اس کا ایک عکس تو اُوپر ان پابندیوں سے لگایا جا سکتا ہے جو چچ نے برہمن آباد میں جاٹوں سے کیا تھا۔
چچ ایک برہمن تھا لیکن عوام کی اکثریت بدھ فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔ مذہبی طور پر اس نے رواداری کا اصول اپنایا لیکن اقتدار کی حفاظت کے لیے چانکیہ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اس نے ہر اس طبقے کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے دبایا جس کی بغاوت کا ذرا بھی خدشہ ہو سکتا تھا۔
بہرکیف چچ پاکستانی علاقوں پر مشتمل تمام علاقوں اور راجستھان کے اکثر علاقے کا حکمران تھا۔ اسے وقتاً فوقتاً بغاوتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اسے دبانے میں کامیاب رہا۔ وہ 671ء میں فوت ہوا اور اس کا چھوٹا بھائی چندر حکمران بنا۔ وہ ایک ہندو مندر کا باعمل برہمن تھا۔ چچ نے اسے اپنا نائب بھی بنایا تھا لیکن جب وہ کشمیر سے بحیرہ عرب تک کے علاقے پر مشتمل ایک وسیع سلطنت کا حکمران بنا تو بہت جلد اس نے بدھ مت کے طریقوں کو اختیار کر لیا۔
مشہور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب تاریخ سندھ میں چچ نامہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ راجہ چندر نے اپنے درباریوں کو جو ہندو تھے، زبردستی بدھ بنا لیا لیکن اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر چندر کو اس کی کیا ضرورت تھی کیونکہ بدھ بطور ’’بھگوان‘‘ ہندو دیوی دیوتاؤں میں شامل ہو چکا تھا۔ ذات پات کا نظام بھی اسی طرح چل رہا تھا، آخر چند فلسفیانہ عقائد منوانے سے بھلا اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ بہرکیف راجہ چندر کو ایک مذہبی آدمی سمجھ کر اروڑ کا گورنر ’’متہ‘‘ چوری چھپے ہندوستانی علاقوں پر مشتمل ریاست ’’قنوج‘‘ پہنچا اور اس کے بادشاہ مہرس کو اُکسایا کہ وہ ہمت کرے تو چندر سے حکومت چھین سکتا ہے جو حکمران کم اور بھکشو زیادہ ہے۔ مہرس نے لشکرکشی کر دی لیکن چندر نے قلعہ بند ہو کر اپنا کامیاب دفاع کیا۔ اس جنگ میں چچ کے چھوٹے بیٹے ’’داہر‘‘ نے بڑی کامیابی سے دُشمن کی بعض سازشوں کو ناکام بنایا۔
داہر کا راجہ بننا
اس جنگ کے بعد اروڑ میں داہر کو گورنر بنا دیا گیا اور برہمن آباد میں چندر کے بیٹے دیوراج کو۔ یہ واقعہ 678ء کا ہے۔ دیوراج ایک برس بعد ہی مر گیا اور اس کی جگہ داہر کا بڑا بھائی جے سینہ حکمران بنا۔
جے سینہ اگرچہ بڑا بھائی تھا لیکن داہر کیونکہ سلطنت کے پایہ تخت میں موجود تھا اس لیے اس نے پوری سلطنت کا حکمران بننے کا اعلان کر دیا۔
دھرسینہ نے برہمن آباد ہی پر حکومت مستحکم کرنے کو کافی سمجھا۔ اس دوران بھاٹیہ کے قلعہ دار راجہ سوھن نے جے سینہ کو بڑا بھائی سمجھتے ہوئے اس کی بہن بائی رانی سے شادی کی خواہش کی۔ جے سینہ نے رشتہ منظور کیا اور داہر کو پیغام بھیجا کہ بہن کو رُخصت کرنے کا انتظام کیا جائے۔
داہر کے پاس بھائی کا قاصد پہنچا تو اس نے ایک قابل نجومی سے بہن کا زائچہ بنوایا اور مشورہ مانگا۔
نجومی نے حیرت انگیز طور پر وہی بات کہی جو اس کی پیدائش کے وقت اس کے باپ چچ کو بتایا گیا تھا کہ لڑکی کی شادی جس کے ساتھ ہو گی وہ پورے ملک کا حکمران بن جائے گا۔ البتہ نجومی نے یہ بھی بتایا کہ رانی بائی کے ستارے بتا رہے ہیں کہ وہ اروڑ سے باہر نہیں جائے گی۔
داہر اس پیشین گوئی پر خاصا پریشان ہو گیا۔ اس نے اپنے سب سے معتبر وزیر ’’بدھی مان‘‘ کو یہ بات بتائی اور مشورہ مانگا۔ بدھی مان اس کے باپ چچ کا بھی وزیر رہ چکا تھا۔ اس نے داہر کو ایک عجیب وغریب مشورہ دیا۔ اس نے کہا آپ اپنی بہن سے نام کی شادی کر لیں اور اسے اپنے تخت پر بٹھائیں۔ یوں آپ نجومی کے کہنے کے مطابق پورے ہندوستان کے بادشاہ بن جائیں گے۔
رانی بائی اگرچہ داہر کی سگی بہن نہیں تھی لیکن ایسا کرنا روایات، دھرم اور ہر قسم کی اخلاقیات کے خلاف تھا۔ اس کو اس کام کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اس موقع پر وزیر بدھی مان نے راجہ داہر کو اپنے مشورے پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی ایک ترکیب لڑائی۔
اس نے زیادہ اون والی ایک بھیڑ لی۔ اس کی اون پر خوب مٹی ملی۔ پھر اس پر رائی کے بیج بکھیر دیے۔ بھیڑ پر پانی کا چھڑکاؤ کیا۔اس کا خاص خیال رکھا اور پھر چند ہی روز بعد بھیڑ کے اُوپر ننھے ننھے رائی کے پودے اُگ آئے۔ یوں بھیڑ کے اُوپر پودوں کا اُگنا ایک عجیب وغریب بات ہو گئی۔ اس نے اس بھیڑ کو شہر کی گلیوں اور بازاروں میں کھلا چھوڑ دیا۔ اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے۔ ہر طرف اسی بھیڑ کے چرچے تھے۔ یہ بھیڑ مسلسل کئی روز تک بازاروں میں پھرتی رہی۔ آخر لوگوں کے لیے اس میں کوئی دلچسپی نہ رہی اور اب نہ کوئی اس کی طرف متوجہ ہوتا اور نہ ہی اس پر بات کرتا۔ اس ترکیب سے بدھی مان نے داہر کو سمجھایا کہ اگر تم سوتیلی بہن سے شادی کرو گے تو لوگ پہلے تو خوب باتیں کریں گے لیکن بعد میں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
راجہ داہر نے بدھی مان کی بات مان لی اور سوتیلی بہن سے محض نام کی شادی کر لی۔ تاریخی معصومی اور چچ نامہ دونوں میں ہے کہ اس نے اپنی دھوتی سے بائی رانی کے دوپٹے کا پلّو باندھا اور آگ کے پھیرے لگا کر اس سے شادی رچالی۔ (چچ نامہ صفحہ 45)
اس روایت کے علاوہ ایک دوسری روایت بھی ہے جسے ہنری کترنر نے اپنی کتاب ’’The Antiqutties of Sind‘‘ میں بیان کیا ہے۔ اس کے صفحہ 17 پر ہے کہ جب راجہ داہر کو بدھی مان نے مشورہ دیا تو اسے بڑی کراہت ہوئی اور اس نے بہن کی شادی تلوار کے ساتھ کر دی۔ تلوار سے شادی کی روایت راجپوت اور ٹھاکر خاندانوں میں پہلے سے موجود تھی اور یہ طریقہ جائیداد کو تقسیم سے بچانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ (سندھ میں آج بھی جائیداد کو محفوظ کرنے کے لیے لڑکیوں کی شادیاں قرآن سے کر دی جاتی ہیں) لیکن اس روایت کو اس صورت میں ماننے پر کئی اعتراض ہوتے ہیں۔ وہ یہ کہ :
*تلوار سے شادی کی روایت کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ پھر داہر کو سمجھانے کے لیے بھیڑ پر رائی اُگانے کی ترکیب کیوں کی گئی؟
*پیش گوئی یہ تھی کہ رانی بائی کا شوہر حکمران بنے گا۔ اس پیشین گوئی کا مصداق بننے کے لیے تلوار سے شادی کر دینے سے مقصد حل نہیں ہوتا بلکہ شوہر بننا پڑتا تھا۔
*داہر کے بڑے بھائی جے سینہ نے بھائی کی اسی حرکت کو بنیاد بنا کر اس پر لشکر کشی کی (اس کا ذکر آگے آرہا ہے) اور اس کے خطوط میں صاف اس بات کا تذکرہ ہے کہ داہر نے بہن سے شادی کی۔ داہر نے جوابی خطوط میں اپنے اس عمل کی صفائی بھی پیش کی اور کہا کہ رانی بائی اس کی حقیقی بہن نہیں ہے۔
*یہ اعتراض کہ عربوں نے داہر کی کردارکشی کے لیے یہ کہانی گھڑی، بھی کوئی ٹھیک بات نہیں لگتی کیونکہ داہر نے محمد بن قاسم کے مقابلے میں جس نالائقی، بزدلی اور غلط حکمت عملی کا ثبوت دیا، اس کے بعد اس پر اس طرح کا الزام لگانے کی بھلا اسے کیا ضرورت تھی؟
*چچ نامہ میں اس ضمن میں جو واقعات درج ہیں، ان میں باہم کوئی تضاد نہیں۔ اس کے برعکس اس کتاب میں جہاں فضول قصے کہانیاں بیان ہوئی ہیں، ان میں سے آسانی سے باہم متضاد اور عقلی لحاظ سے ناقابل یقین باتوں کے ذریعے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ محض فرضی قصے ہیں لیکن اس قصے کی ساری کڑیاں حالات وواقعات میں بالکل ٹھیک ٹھیک بیٹھ جاتی ہیں۔
*راجہ داہر کے باپ نے بھی بیوہ سے شادی کر کے برہمنی روایات کو توڑا تھا۔ گویا اقتدار کی خاطر روایت توڑنے کی ’’روایت‘‘ اس کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ لہٰذا قرین قیاس یہی ہے کہ راجہ داہر نے اپنے وزیر بدھی مان کے مشورے پر رانی بائی سے کم ازکم نام کی شادی ضرور کی ہو گی۔
داہر کے بھائی کا ردِعمل
ظاہر ہے داہر کے اس عمل کا شدید ردِعمل ہونا تھا اور ہوا۔ اس کے بڑے بھائی جے سینہ نے داہر کو خط لکھا کہ فوراً توبہ کر کے شادی توڑو، ورنہ تمھیں اس کی سزا دی جائے گی۔ داہر نے جواب میں لکھا کہ تمھیں معلوم ہی ہے رانی بائی کی ماں جاٹ خاندان کی تھی جو کہ دُشمن ذات ہے اور اجنبی۔ اس لیے اس سے شادی کرنے میں کوئی خرابی نہیں۔ یہ جواب پاکر جے سینہ فوج لے کر اروڑ کی طرف روانہ ہوا۔ لیکن سیدھا سفر کرنے کے بجائے وہ گھومتا گھماتا اور شکار کھیلنے کا تاثر دیتا ہوا آگے بڑھتا رہا تاکہ داہر کے جاسوس اسے یہ اطلاع دیں کہ جے سینہ حملہ کرنے نہیں آرہا۔ جب وہ اروڑ سے تین دن کی مسافت پر رہ گیا تو بڑی برق رفتاری سے ایک رات ایک دن کے سفر کے بعد اروڑ کے باہر پہنچ کر خیمہ زن ہو گیا۔ اس نے بھائی کو پیغام بھیجا کہ سلطنت کا وارث میں ہوں، اس لیے قلعہ چھوڑ دو (اروڑ ایک قلعہ بند شہر تھا) داہر نے بدھی مان سے مشورہ کر کے گول مول سا جواب دیا اور پھر دونوں بھائیوں میں کچھ پیغام رسانی ہوتی رہی۔ آخر جے سینہ ہاتھی پر بیٹھ کر اکیلا ہی قلعے کے دروازے کی طرف بڑھا۔
اس کے بعد چچ نامہ میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں، وہ کچھ یوں ہیں:
داہر بھائی کو دیکھ کر تمام احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر اس کی طرف دوڑا۔ لوگوں کو دکھانے کی خاطر کہ دونوں بھائیوں میں کوئی تنازع نہیں، وہ اس کے ساتھ ہاتھی پر بیٹھ گیا مگر اس کے وزیر کو یقین تھا کہ یہ سب جے سینہ کا دھوکا ہے۔ وہ داہر کو قتل کر ڈالے گا۔ وہ گھوڑا دوڑاتا ہوا اس کے پیچھے آیا اور داہر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، وزیر نے سرگوشی سے اسے کہا کہ جب وہ شہر کے دروازے سے گزرنے لگے تو اُوپر سے دروازے کو تھام کر لٹک جائے۔ ہاتھی نیچے سے گزر جائے گا اور ہم آپ کو بحفاظت اُتار لیں گے۔ داہر نے ایسا ہی کیا۔ جے سینہ کو اس وقت تو علم نہ ہوا لیکن جب صورت حال کا علم ہوا تو اسے بہت دُکھ ہوا اور بیمار ہو گیا۔
اس کہانی میں بہت ساری باتیں ناقابل قبول ہیں، مثلاً یہ کہ پہلے یہ کہا گیا ہے کہ جے سینہ دروازے تک آیا، پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ قلعے کے دروازے کے اندر داخل ہو گیا۔ اس کے بعد یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ جب داہر، بھائی کے ساتھ بیٹھا تھا تو وزیر کی سرگوشی کا جے سینہ کو کوئی علم نہ ہوا ہو گا اور یہ بات بھی درست نہیں لگتی کہ قلعے کا دروازہ صرف اتنا اُونچا ہو گا کہ ہاتھی پر بیٹھا سوار کھڑا ہو کر اُوپر کی دہلیز کو پکڑ سکتا ہو گا۔ قلعہ بند شہروں کے دروازے یقیناًاتنے کم اُونچے نہیں ہو سکتے کیونکہ ہاتھیوں پر پالان بھی ہوتے ہیں اور پھر سواروں کے پاس لمبے لمبے نیزے بھی۔ اس لیے درایتاً اس کہانی میں خاصے خلا ہیں۔ بہرکیف اتنی بات یقینی ہے کہ ابھی دونوں بھائیوں میں کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی کہ جے سینہ چیچک کی مختصر علالت کے بعد شہر کے باہر ہی مر گیا اور داہر اب بلاشرکت غیرے پورے سندھ کا راجہ بن گیا۔ یوں رانی بائی سے شادی کرنے کا اسے فوراً فائدہ ہو گیا۔
687ء میں راجستھان یا ہندوستانی علاقے کی بڑی سلطنت قنوج نے سندھ پر حملہ کر دیا۔ حملہ آور بادشاہ کا نام رمل تھا۔ راجہ داہر نے مشورے کے بعد اس لشکر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر بدھی مان نے داہر کو ’’علافی‘‘ سے مدد لینے کا مشورہ دیا۔ یہ علافی اصل میں’محمد حارث علافی‘ تھا۔ یہ ایک مسلمان باغی تھا جس نے مکران کے گورنر کو قتل کر دیا اور بھاگ کر راجہ داہر کے پاس چلا گیا جس نے اسے پناہ دی۔ چنانچہ بدھی مان کے کہنے پر جب علافی سے مشورہ کیا گیا تو اس نے دُشمن پر شب خون مارنے کا منصوبہ پیش کیا۔ لہٰذا علافی کے 500ساتھی، داہر کے سب سے بہادر دستوں کے ساتھ مل کر رات کو بے خبری میں دُشمنوں پر حملہ آور ہوگئے۔ حملہ اس قدر کامیاب رہا کہ دُشمن بے شمار لاشیں اور قیدی چھوڑ کر پسپا ہو گیا۔ یوں علافی نے راجہ داہر کے احسان کا بدلہ چکا دیا اور دونوں کے تعلقات مزید مضبوط ہو گئے۔



 
  • Like
Reactions: Seemab_khan

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
@Don @RedRose64 @saviou @Shiraz-Khan @AishLyn @Bird-Of-Paradise @DiLkash @shehr-e-tanhayi @Ahmad-Hasan @fahadhassan @Umm-e-ahmad @Abidi @Aayat @Aina_ @Armaghankhan @Angel_A @Ajnabhi @-Anna- @*Arshia* @Aks_ @Aaidah @Aizaa @amerzish_malik @Arz0o @Arzoomehak @Asheer @Atif-adi @Awadiya @Aaylaaaaa @Ayesha-Ali @Afnan_ @A7if @Aliean @Adorable_Pari @Awesome_Sunny @Ajnabee_Hoon @Barkat_ @Babar-Azam @Blue-Black @Bela @Brilliant_Boy @Binte_Hawwa @bilal_ishaq_786 @baba-cakes @chai-mein-biscuit @CuTe_HiNa @Cheeky @Charming_Deep @colgatepak @Catastrophe @Chai- mein-biscut
@Danee @Dua001 @DevilJin @Dua_ @Dreamy Boy @dur-e-shawar @diya. @errorsss @DeMon- @Diya_noor @Dil-Wale @Eshal-Hoor @Faiz4lyf @Flower_Flora @Fizaali @Fatima- @France-Boy @genuine @gullubat @gulfishan @Ghazal_Ka_Chiragh @Guriya_Rani @huny @H@!der @H!N@ @Hoorain @hania7012 @HWJ @Haider_Mk
@Iceage-TM @i love sahabah @italianVirus @illusionist @Island_Jewel @ijazamin @imama @junaid_ak47 @Justin_ @Jahanger @Just_Like_Roze @kaskar @Kavi @khalid_khan @koochi @KrazzzyBoy @lovely_eyes @Lost Passenger @Lightman @LUBABA @LostSea @Lafanter @Mano_Doll @Mahen @maanu115 @Mantasha_Zawaar @Manxil @Marah @Mas00m-DeVil @marib @Menaz @minaahil @Meekaeel @MSC @Minal @mrX @MumS @Muhammad_Rehman_Sabir @Mawaa_Khan @muttalib @Mazyona @Nadaan_Shazie @Naila_Rubab @namaal @NamaL @Nikka_Raja @nighatnaseem21 @Noor_Afridi @nizamuddin @Noman- @isma33
@Ocean-of-love @onemanarmy @p3arl @Pari_Qrakh @Prince-Farry @Princess_Nisa @Princess_E @pakhtun @PrinCe_ @Raat ki Rani @raaz the secret @Rahath @Ramsha_Cat @Ramiz @RaPuNzLe @reality @REHAN_UK @Robina_Rainbow @seemab_khan @Syeda-Hilya @sweet-c-chori @ShehrYaar @shailina @Shoaib_Nasir @Salman_ @S_M_Muneeb @Star24 @sonofaziz @shzd @Sunny_Rano @Silent_tear_hurt @sweet bhoot @silent_heart @Sanafatima @SairaRizwan @Sweeta @Shona619 @soul_of_silence. @Stylo_Princess @SUMAIKA @soul_snatcher @sweet_lily @sweet_c_kuri @Shayana @Sahil_ @SARKASH @SadiaXtyle
@Toobi @Twinkle Queen @Tanha_Dil @Tariq Saeed @ujalaa @Umeed_Ki_Kiran @umeedz @unpredictable2 @Vasim @Wafa_Khan @wajahat_ahmad @X_w @yoursks @Yuxra @Zia_Hayderi @zaryaab @Ziddi_anGel @zonii @Z-4-Zahid @zealous @Zaad @Zypher @Zahabia @Zulfishan
 

Seemab_khan

ღ ƮɨƮŁɨɨɨ ღ
Moderator
Dec 7, 2012
6,424
4,483
1,313
✮hმΓἶρυΓ, ρმκἶჰནმῆ✮
راجہ داہر سے اس حوالے سے ہم سب واقف ہیں کہ اسے شکست دے کر محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا۔ لیکن راجہ داہر کون تھا؟ وہ کیسے سندھ کا حکمران بنا اس کے پیچھے کئی دلچسپ داستانیں ہے۔ آج اسی داستانوں کو ہم نے تاریخ کے درس کا عنوان بنایا ہے۔

View attachment 109440

کم و بیش وہ علاقے جن پر آج پاکستان مشتمل ہے، یہ ’’سندھ‘‘ کہلاتا تھا۔ اس پر ایک بدھ راجہ ساہسی کی حکومت تھی۔ راجہ ساہسی کا ایک ہندو برہمن وزیر تھا، جس کا نام دیوان رام تھا۔ اس نے ایک اجنبی ہندو نوجوان سے متاثر ہو کر اسے اپنا نائب مراسلات (جدید معنوں میں سیکریٹری) رکھ لیا۔ ایک دفعہ راجہ ساہسی نے دیوان رام کو خط لکھنے کے لیے بلوایا۔ دیوان رام موجود نہیں تھا، اس لیے اس ہندو نوجوان، جس کا نام ’’چچ‘‘ تھا، کو جانا پڑا۔
راجہ ساہسی، نوجوان چچ کی قابلیت سے بہت متاثر ہوا اور اسے نائب وزیر بنا لیا۔ کچھ دنوں کے بعد دیوان رام فوت ہو گیا اور چچ نے اس کی جگہ لے لی۔ ایک دن چچ کو راجہ نے ایسی جگہ بلایا جہاں اس کی رانی بھی موجود تھی۔ چچ کی خوبصورتی اور خوش گفتاری سے رانی بہت متاثر ہوئی اور اس نے اپنے ذاتی اور رازدار خادم کے ذریعے سے چچ کو محبت کا پیغام بھجوایا۔ چچ نے کہا کہ وہ راجہ سے غداری نہیں کر سکتا،

رانی نے کہلا بھیجا کہ ہم تمھارے جذبات کی قدر کرتے ہیں لیکن تم کم ازکم روزانہ محل میں آکر اپنی صورت ہی دکھا جایا کرو۔ چچ اس پر مان گیا۔ اس دوران چچ پر راجہ کا اعتماد بہت بڑھ چکا تھا۔ وہ بیمار بھی ہو گیا تھا اور سلطنت کے اہم معاملات میں وہ چچ ہی کے مشورے کو آخری سمجھتا۔ انھی دنوں جب راجہ کی بیماری مزید بڑھ گئی اور اس کے بچنے کی اُمید نہ رہی تو ایک روز رانی نے چچ کو بلایا اور کہا کہ تمھیں تو معلوم ہے کہ راجہ کا کوئی وارث نہیں، اس لیے اس کے مرتے ہی میرے مخالف مجھے قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیں گے لیکن اگر تم ہمت سے کام لو تو میرے سمیت تخت وتاج کے مالک بن سکتے ہو۔
اور چچ نے ہمت کرنے کا ارادہ کر لیا۔
چچ نے رانی، جس کا نام سوھنی تھا، سے کہا یقیناًآپ کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہو گا جس کی وجہ سے آپ نے مجھ سے یہ بات کی ہے۔ تب رانی سوھنی نے کہا:’’تم پچاس زنجیروں اور بیڑیوں کی تیاری کا حکم جاری کرو۔ پھر انھیں رات کو خفیہ طریقے سے گھر کے اندر لاکر چھپا دو تاکہ ہم اسے ضرورت پڑنے پر استعمال کرسکیں‘‘۔
چنانچہ چچ کے حکم سے بھاری زنجیریں اور بیڑیاں تیار کی گئیں اور محل کے اندر لا کر چھپا دی گئیں۔ جب بادشاہ کے آخری لمحات آن پہنچے تو معالجین جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ رانی سوھنی دیوی نے انھیں مزید کچھ وقت محل میں رہنے کو کہا۔ ساتھ ہی رازدار نوکروں کے ذریعے سے بادشاہ کو محل کے پچھلے حصے میں پہنچا دیا تاکہ شہر میں کسی کو پتا نہ چلے کہ رائے ساہسی مر چکا ہے۔ پھر اس نے اپنے وفادار سپاہیوں کی بھاری تعداد کو محل میں بلوا لیا۔ اس کے بعد بادشاہ کے تمام قریبی عزیزوں اور تاج وتخت کے دعوے داروں کو ایک ایک کر کے یہ کہہ کر بلوایا کہ بادشاہ کی طبیعت اب بہتر ہے اور وہ ان سے مشورہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک دو یا چند افراد کے گروپوں کی صورت میں آتے اور رانی کے وفادار انھیں زنجیروں سے جکڑ دیتے۔ پھر اس نے بادشاہ کے غریب اور نظرانداز شدہ رشتہ داروں کو بلایا اور کہا کہ بادشاہ اپنے فلاں فلاں رشتے دار سے ناراض ہے اور انھیں زنجیروں سے جکڑوا دیا گیا ہے۔ اگر تم اسے قتل کر دو تو اس کی حویلی اور جائیداد پر قبضہ کر سکتے ہو۔ اس طرح سب نے اپنے اپنے دُشمنوں کو قتل کیا اور ان کے گھر بار جائیداد مال مویشی اور دولت کے مالک بن گئے۔ یوں ایک رات میں چچ اور سوھنی دیوی نے اپنے اکثر مخالفین کو ختم کر دیا۔
اس کے بعد تمام وفادار پیروکار اور وابستگان اور بادشاہ کے غریب رشتے دار جو، اب سردار بن چکے تھے اور جنھوں نے اس قتل میں حصہ لیا تھا، محل کے سامنے قطاریں بنا کر اسلحہ سے لیس ہو کر کھڑے ہو گئے۔ تخت کو خوب اچھی طرح سجایا گیا۔ ملکہ نے ایک وزیر ’’بدھی مان‘‘ سے کہا کہ مصاحبوں اور ارکانِ حکومت سے کہو کہ مہاراج کی طبیعت اب بہتر ہے اور بیماری دور ہو رہی ہے لیکن انتظامی گڑبڑ سے جو صدمہ انھیں ہوا ہے، اس کی وجہ سے وہ درشن نہیں دے سکتے اور عوامی معاملات کو نمٹا نہیں سکتے۔ لہٰذا اُنھوں نے وزیر چچ کو اپنا قائم مقام مقرر کیا ہے تاکہ وہ مہاراج کے نام پر امورِ سلطنت کو چلائیں۔ تمام امراء اور عمائدین نے اطاعت میں سر جھکا دیا اور اپنی پیشانیاں زمین پر رکھیں اور کہا کہ وزیر چچ سے زیادہ اہل اس رُتبے کا اور کوئی نہیں۔ تب رانی سوھنی دیوی نے چچ کو ہیرے جواہرات سے مرصع لباسِ شاہانہ پیش کیا اور اسے تخت شاہی پر بٹھایا۔ ساتھ ہی تاج شاہی اس کے سر پر رکھا۔ پھر رانی نے حکم دیا کہ وزیر کا دوبارہ انتخاب کیا جائے۔ اس کے علاوہ تمام جاگیریں نئے سرے سے دی جائیں۔ یوں رائے خاندان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا اور چچ برہمن عظیم سلطنت سندھ کا بادشاہ بن گیا۔ رائے ساہسی کا انتقال 632ء میں ہوا۔
چچ نے 632ء کو تخت سنبھالا تھا اور اس نے چالیس برس حکومت کی۔ اس واقعے کے چھ ماہ بعد راجہ ساہسی کے بھائی راجہ مہرتھ کو معلوم ہوا کہ اس کا بھائی مر چکا ہے اور ایک برہمن چچ نے سازش کر کے تخت پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس نے چچ پر چڑھائی کر دی۔ اروڑ کے قریب دونوں میں جنگ ہوئی۔ جنگ نے طول پکڑا تو راجہ مہرتھ نے چچ کو پیغام بھیجا کہ بہادر ہو تو آؤ میرے ساتھ دوبدو مقابلہ کرو، جو جیتے گا وہی تخت کا مالک ہو گا۔ چچ نے اس چیلنج کو قبول کیا لیکن گھوڑے کے بغیر مقابلے کی شرط لگائی۔ مہرتھ نے یہ بات مان لی۔ دونوں گھوڑوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے قریب آئے۔ چچ نے اپنے سائیس سے کہا کہ تم گھوڑے کو آہستہ آہستہ میرے پیچھے لاتے جانا۔ ادھر مہرتھ گھوڑے سے اُتر کر نپے تلے تیز قدم اُٹھاتا چچ کی طرف بڑھا جو ابھی آہستہ چل رہا تھا اور اس کے پیچھے اس کا گھوڑا بھی غیرمحسوس طریقے سے آرہا تھا۔ جب چچ نے دیکھا کہ مہرتھ اب اس کی پہنچ میں ہے تو اچانک پلٹا ۔۔۔ گھوڑے پر اُچھل کر بیٹھا اور چند لمحوں میں مہرتھ کا سر قلم کر ڈالا۔ یوں 633ء میں چچ بلاشرکت غیرے پورے سندھ کا حکمران بن گیا۔ اس نے رانی سوھنی سے باقاعدہ شادی کر لی۔ اس نے یہ شادی اس وقت کے اصولوں کے خلاف کی تھی کیونکہ برہمن اپنے مذہب کے مطابق کسی بیوہ سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔
چچ نے اس کے بعد بھی کئی شادیاں کیں لیکن اس کے دونوں بیٹے رانی سوھنی ہی سے پیدا ہوئے۔ اس کی بیٹی ’’بائی رانی‘‘ کے متعلق گمان ہے کہ وہ ایک جاٹ یا راجپوت عورت سے تھی۔ چچ کا بڑا بیٹا جے سینہ تھا اور اس سے چھوٹا داہر۔ پیدائش کے وقت نجومیوں نے بتایا کہ دونوں بیٹے بادشاہ بنیں گے ۔
چچ نے اس کے بعد شمالی سندھ، پنجاب، سیوستان، بودھیہ، کرمان اور مکران کے علاقے بھی فتح کر لیے۔ برہمن آباد کو فتح کرنے کے بعد اس نے حکمران اگھم لوہانہ کی بیوہ سے شادی کر لی۔ اس سے اس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس نام ’’ بائی رانی ‘‘ رکھا گیا۔ نجومیوں نے اس بچی کے متعلق بتایا کہ جو کوئی ’’بائی رانی‘‘ کا شوہر ہو گا وہ پورے سندھ کا بادشاہ ہو گا۔ اس پیش گوئی کو البتہ راز میں رکھا گیا۔
مستقبل میں کسی بھی قسم کی بغاوت کو روکنے کے لیے چچ نے یہ اقدام کیے:چچ نے برہمن آباد کے پہلے حکمران خاندان لوہانہ اور دوسرے اہم خاندان ’’جاٹ‘‘ کا سماجی رُتبہ شودروں کے برابر کر دیا۔ ان پر لازم تھا کہ وہ ریشمی لباس نہ پہنیں۔ گھوڑے کی سواری بغیر زین کے کریں گے۔ گھر کے باہر ہمیشہ ننگے سر اور ننگے پاؤں رہیں گے۔ گھروں سے باہر اپنے ساتھ کتے رکھیں گے تاکہ ان کی پہچان رہے۔ برہمن آباد کے حکمران کو لکڑیاں فراہم کریں گے۔
جاٹوں کے بارے میں واضح رہنا چاہیے کہ یہ اصل میں کسان تھے۔ اس لیے انھیں شودروں سے بہتر مقام ’’ویش‘‘ حاصل تھا لیکن جب پاکستانی علاقوں میں سے غیرملکی اقتدار ختم ہوا تو بڑے بڑے جاگیردار اور دوسرے اہم عہدے دار حکمران بن گئے۔ ان لوگوں نے، جنھوں نے اپنے آپ کو راجپوت یعنی راجوں کے بیٹے کہلایا، کسانوں یعنی جاٹوں کو بہت دبا کر رکھا تاکہ وہ انھیں ٹیکس بھی دیتے رہیں اور بغاوت بھی نہ کرسکیں۔ راجپوت ان جاٹوں سے کس حد تک ظلم کرتے تھے، اس کا ایک عکس تو اُوپر ان پابندیوں سے لگایا جا سکتا ہے جو چچ نے برہمن آباد میں جاٹوں سے کیا تھا۔
چچ ایک برہمن تھا لیکن عوام کی اکثریت بدھ فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔ مذہبی طور پر اس نے رواداری کا اصول اپنایا لیکن اقتدار کی حفاظت کے لیے چانکیہ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اس نے ہر اس طبقے کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے دبایا جس کی بغاوت کا ذرا بھی خدشہ ہو سکتا تھا۔
بہرکیف چچ پاکستانی علاقوں پر مشتمل تمام علاقوں اور راجستھان کے اکثر علاقے کا حکمران تھا۔ اسے وقتاً فوقتاً بغاوتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اسے دبانے میں کامیاب رہا۔ وہ 671ء میں فوت ہوا اور اس کا چھوٹا بھائی چندر حکمران بنا۔ وہ ایک ہندو مندر کا باعمل برہمن تھا۔ چچ نے اسے اپنا نائب بھی بنایا تھا لیکن جب وہ کشمیر سے بحیرہ عرب تک کے علاقے پر مشتمل ایک وسیع سلطنت کا حکمران بنا تو بہت جلد اس نے بدھ مت کے طریقوں کو اختیار کر لیا۔
مشہور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب تاریخ سندھ میں چچ نامہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ راجہ چندر نے اپنے درباریوں کو جو ہندو تھے، زبردستی بدھ بنا لیا لیکن اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر چندر کو اس کی کیا ضرورت تھی کیونکہ بدھ بطور ’’بھگوان‘‘ ہندو دیوی دیوتاؤں میں شامل ہو چکا تھا۔ ذات پات کا نظام بھی اسی طرح چل رہا تھا، آخر چند فلسفیانہ عقائد منوانے سے بھلا اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ بہرکیف راجہ چندر کو ایک مذہبی آدمی سمجھ کر اروڑ کا گورنر ’’متہ‘‘ چوری چھپے ہندوستانی علاقوں پر مشتمل ریاست ’’قنوج‘‘ پہنچا اور اس کے بادشاہ مہرس کو اُکسایا کہ وہ ہمت کرے تو چندر سے حکومت چھین سکتا ہے جو حکمران کم اور بھکشو زیادہ ہے۔ مہرس نے لشکرکشی کر دی لیکن چندر نے قلعہ بند ہو کر اپنا کامیاب دفاع کیا۔ اس جنگ میں چچ کے چھوٹے بیٹے ’’داہر‘‘ نے بڑی کامیابی سے دُشمن کی بعض سازشوں کو ناکام بنایا۔
داہر کا راجہ بننا
اس جنگ کے بعد اروڑ میں داہر کو گورنر بنا دیا گیا اور برہمن آباد میں چندر کے بیٹے دیوراج کو۔ یہ واقعہ 678ء کا ہے۔ دیوراج ایک برس بعد ہی مر گیا اور اس کی جگہ داہر کا بڑا بھائی جے سینہ حکمران بنا۔
جے سینہ اگرچہ بڑا بھائی تھا لیکن داہر کیونکہ سلطنت کے پایہ تخت میں موجود تھا اس لیے اس نے پوری سلطنت کا حکمران بننے کا اعلان کر دیا۔
دھرسینہ نے برہمن آباد ہی پر حکومت مستحکم کرنے کو کافی سمجھا۔ اس دوران بھاٹیہ کے قلعہ دار راجہ سوھن نے جے سینہ کو بڑا بھائی سمجھتے ہوئے اس کی بہن بائی رانی سے شادی کی خواہش کی۔ جے سینہ نے رشتہ منظور کیا اور داہر کو پیغام بھیجا کہ بہن کو رُخصت کرنے کا انتظام کیا جائے۔
داہر کے پاس بھائی کا قاصد پہنچا تو اس نے ایک قابل نجومی سے بہن کا زائچہ بنوایا اور مشورہ مانگا۔
نجومی نے حیرت انگیز طور پر وہی بات کہی جو اس کی پیدائش کے وقت اس کے باپ چچ کو بتایا گیا تھا کہ لڑکی کی شادی جس کے ساتھ ہو گی وہ پورے ملک کا حکمران بن جائے گا۔ البتہ نجومی نے یہ بھی بتایا کہ رانی بائی کے ستارے بتا رہے ہیں کہ وہ اروڑ سے باہر نہیں جائے گی۔
داہر اس پیشین گوئی پر خاصا پریشان ہو گیا۔ اس نے اپنے سب سے معتبر وزیر ’’بدھی مان‘‘ کو یہ بات بتائی اور مشورہ مانگا۔ بدھی مان اس کے باپ چچ کا بھی وزیر رہ چکا تھا۔ اس نے داہر کو ایک عجیب وغریب مشورہ دیا۔ اس نے کہا آپ اپنی بہن سے نام کی شادی کر لیں اور اسے اپنے تخت پر بٹھائیں۔ یوں آپ نجومی کے کہنے کے مطابق پورے ہندوستان کے بادشاہ بن جائیں گے۔
رانی بائی اگرچہ داہر کی سگی بہن نہیں تھی لیکن ایسا کرنا روایات، دھرم اور ہر قسم کی اخلاقیات کے خلاف تھا۔ اس کو اس کام کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اس موقع پر وزیر بدھی مان نے راجہ داہر کو اپنے مشورے پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی ایک ترکیب لڑائی۔
اس نے زیادہ اون والی ایک بھیڑ لی۔ اس کی اون پر خوب مٹی ملی۔ پھر اس پر رائی کے بیج بکھیر دیے۔ بھیڑ پر پانی کا چھڑکاؤ کیا۔اس کا خاص خیال رکھا اور پھر چند ہی روز بعد بھیڑ کے اُوپر ننھے ننھے رائی کے پودے اُگ آئے۔ یوں بھیڑ کے اُوپر پودوں کا اُگنا ایک عجیب وغریب بات ہو گئی۔ اس نے اس بھیڑ کو شہر کی گلیوں اور بازاروں میں کھلا چھوڑ دیا۔ اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے۔ ہر طرف اسی بھیڑ کے چرچے تھے۔ یہ بھیڑ مسلسل کئی روز تک بازاروں میں پھرتی رہی۔ آخر لوگوں کے لیے اس میں کوئی دلچسپی نہ رہی اور اب نہ کوئی اس کی طرف متوجہ ہوتا اور نہ ہی اس پر بات کرتا۔ اس ترکیب سے بدھی مان نے داہر کو سمجھایا کہ اگر تم سوتیلی بہن سے شادی کرو گے تو لوگ پہلے تو خوب باتیں کریں گے لیکن بعد میں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
راجہ داہر نے بدھی مان کی بات مان لی اور سوتیلی بہن سے محض نام کی شادی کر لی۔ تاریخی معصومی اور چچ نامہ دونوں میں ہے کہ اس نے اپنی دھوتی سے بائی رانی کے دوپٹے کا پلّو باندھا اور آگ کے پھیرے لگا کر اس سے شادی رچالی۔ (چچ نامہ صفحہ 45)
اس روایت کے علاوہ ایک دوسری روایت بھی ہے جسے ہنری کترنر نے اپنی کتاب ’’The Antiqutties of Sind‘‘ میں بیان کیا ہے۔ اس کے صفحہ 17 پر ہے کہ جب راجہ داہر کو بدھی مان نے مشورہ دیا تو اسے بڑی کراہت ہوئی اور اس نے بہن کی شادی تلوار کے ساتھ کر دی۔ تلوار سے شادی کی روایت راجپوت اور ٹھاکر خاندانوں میں پہلے سے موجود تھی اور یہ طریقہ جائیداد کو تقسیم سے بچانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ (سندھ میں آج بھی جائیداد کو محفوظ کرنے کے لیے لڑکیوں کی شادیاں قرآن سے کر دی جاتی ہیں) لیکن اس روایت کو اس صورت میں ماننے پر کئی اعتراض ہوتے ہیں۔ وہ یہ کہ :
*تلوار سے شادی کی روایت کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ پھر داہر کو سمجھانے کے لیے بھیڑ پر رائی اُگانے کی ترکیب کیوں کی گئی؟
*پیش گوئی یہ تھی کہ رانی بائی کا شوہر حکمران بنے گا۔ اس پیشین گوئی کا مصداق بننے کے لیے تلوار سے شادی کر دینے سے مقصد حل نہیں ہوتا بلکہ شوہر بننا پڑتا تھا۔
*داہر کے بڑے بھائی جے سینہ نے بھائی کی اسی حرکت کو بنیاد بنا کر اس پر لشکر کشی کی (اس کا ذکر آگے آرہا ہے) اور اس کے خطوط میں صاف اس بات کا تذکرہ ہے کہ داہر نے بہن سے شادی کی۔ داہر نے جوابی خطوط میں اپنے اس عمل کی صفائی بھی پیش کی اور کہا کہ رانی بائی اس کی حقیقی بہن نہیں ہے۔
*یہ اعتراض کہ عربوں نے داہر کی کردارکشی کے لیے یہ کہانی گھڑی، بھی کوئی ٹھیک بات نہیں لگتی کیونکہ داہر نے محمد بن قاسم کے مقابلے میں جس نالائقی، بزدلی اور غلط حکمت عملی کا ثبوت دیا، اس کے بعد اس پر اس طرح کا الزام لگانے کی بھلا اسے کیا ضرورت تھی؟
*چچ نامہ میں اس ضمن میں جو واقعات درج ہیں، ان میں باہم کوئی تضاد نہیں۔ اس کے برعکس اس کتاب میں جہاں فضول قصے کہانیاں بیان ہوئی ہیں، ان میں سے آسانی سے باہم متضاد اور عقلی لحاظ سے ناقابل یقین باتوں کے ذریعے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ محض فرضی قصے ہیں لیکن اس قصے کی ساری کڑیاں حالات وواقعات میں بالکل ٹھیک ٹھیک بیٹھ جاتی ہیں۔
*راجہ داہر کے باپ نے بھی بیوہ سے شادی کر کے برہمنی روایات کو توڑا تھا۔ گویا اقتدار کی خاطر روایت توڑنے کی ’’روایت‘‘ اس کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ لہٰذا قرین قیاس یہی ہے کہ راجہ داہر نے اپنے وزیر بدھی مان کے مشورے پر رانی بائی سے کم ازکم نام کی شادی ضرور کی ہو گی۔
داہر کے بھائی کا ردِعمل
ظاہر ہے داہر کے اس عمل کا شدید ردِعمل ہونا تھا اور ہوا۔ اس کے بڑے بھائی جے سینہ نے داہر کو خط لکھا کہ فوراً توبہ کر کے شادی توڑو، ورنہ تمھیں اس کی سزا دی جائے گی۔ داہر نے جواب میں لکھا کہ تمھیں معلوم ہی ہے رانی بائی کی ماں جاٹ خاندان کی تھی جو کہ دُشمن ذات ہے اور اجنبی۔ اس لیے اس سے شادی کرنے میں کوئی خرابی نہیں۔ یہ جواب پاکر جے سینہ فوج لے کر اروڑ کی طرف روانہ ہوا۔ لیکن سیدھا سفر کرنے کے بجائے وہ گھومتا گھماتا اور شکار کھیلنے کا تاثر دیتا ہوا آگے بڑھتا رہا تاکہ داہر کے جاسوس اسے یہ اطلاع دیں کہ جے سینہ حملہ کرنے نہیں آرہا۔ جب وہ اروڑ سے تین دن کی مسافت پر رہ گیا تو بڑی برق رفتاری سے ایک رات ایک دن کے سفر کے بعد اروڑ کے باہر پہنچ کر خیمہ زن ہو گیا۔ اس نے بھائی کو پیغام بھیجا کہ سلطنت کا وارث میں ہوں، اس لیے قلعہ چھوڑ دو (اروڑ ایک قلعہ بند شہر تھا) داہر نے بدھی مان سے مشورہ کر کے گول مول سا جواب دیا اور پھر دونوں بھائیوں میں کچھ پیغام رسانی ہوتی رہی۔ آخر جے سینہ ہاتھی پر بیٹھ کر اکیلا ہی قلعے کے دروازے کی طرف بڑھا۔
اس کے بعد چچ نامہ میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں، وہ کچھ یوں ہیں:
داہر بھائی کو دیکھ کر تمام احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر اس کی طرف دوڑا۔ لوگوں کو دکھانے کی خاطر کہ دونوں بھائیوں میں کوئی تنازع نہیں، وہ اس کے ساتھ ہاتھی پر بیٹھ گیا مگر اس کے وزیر کو یقین تھا کہ یہ سب جے سینہ کا دھوکا ہے۔ وہ داہر کو قتل کر ڈالے گا۔ وہ گھوڑا دوڑاتا ہوا اس کے پیچھے آیا اور داہر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، وزیر نے سرگوشی سے اسے کہا کہ جب وہ شہر کے دروازے سے گزرنے لگے تو اُوپر سے دروازے کو تھام کر لٹک جائے۔ ہاتھی نیچے سے گزر جائے گا اور ہم آپ کو بحفاظت اُتار لیں گے۔ داہر نے ایسا ہی کیا۔ جے سینہ کو اس وقت تو علم نہ ہوا لیکن جب صورت حال کا علم ہوا تو اسے بہت دُکھ ہوا اور بیمار ہو گیا۔
اس کہانی میں بہت ساری باتیں ناقابل قبول ہیں، مثلاً یہ کہ پہلے یہ کہا گیا ہے کہ جے سینہ دروازے تک آیا، پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ قلعے کے دروازے کے اندر داخل ہو گیا۔ اس کے بعد یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ جب داہر، بھائی کے ساتھ بیٹھا تھا تو وزیر کی سرگوشی کا جے سینہ کو کوئی علم نہ ہوا ہو گا اور یہ بات بھی درست نہیں لگتی کہ قلعے کا دروازہ صرف اتنا اُونچا ہو گا کہ ہاتھی پر بیٹھا سوار کھڑا ہو کر اُوپر کی دہلیز کو پکڑ سکتا ہو گا۔ قلعہ بند شہروں کے دروازے یقیناًاتنے کم اُونچے نہیں ہو سکتے کیونکہ ہاتھیوں پر پالان بھی ہوتے ہیں اور پھر سواروں کے پاس لمبے لمبے نیزے بھی۔ اس لیے درایتاً اس کہانی میں خاصے خلا ہیں۔ بہرکیف اتنی بات یقینی ہے کہ ابھی دونوں بھائیوں میں کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی کہ جے سینہ چیچک کی مختصر علالت کے بعد شہر کے باہر ہی مر گیا اور داہر اب بلاشرکت غیرے پورے سندھ کا راجہ بن گیا۔ یوں رانی بائی سے شادی کرنے کا اسے فوراً فائدہ ہو گیا۔
687ء میں راجستھان یا ہندوستانی علاقے کی بڑی سلطنت قنوج نے سندھ پر حملہ کر دیا۔ حملہ آور بادشاہ کا نام رمل تھا۔ راجہ داہر نے مشورے کے بعد اس لشکر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر بدھی مان نے داہر کو ’’علافی‘‘ سے مدد لینے کا مشورہ دیا۔ یہ علافی اصل میں’محمد حارث علافی‘ تھا۔ یہ ایک مسلمان باغی تھا جس نے مکران کے گورنر کو قتل کر دیا اور بھاگ کر راجہ داہر کے پاس چلا گیا جس نے اسے پناہ دی۔ چنانچہ بدھی مان کے کہنے پر جب علافی سے مشورہ کیا گیا تو اس نے دُشمن پر شب خون مارنے کا منصوبہ پیش کیا۔ لہٰذا علافی کے 500ساتھی، داہر کے سب سے بہادر دستوں کے ساتھ مل کر رات کو بے خبری میں دُشمنوں پر حملہ آور ہوگئے۔ حملہ اس قدر کامیاب رہا کہ دُشمن بے شمار لاشیں اور قیدی چھوڑ کر پسپا ہو گیا۔ یوں علافی نے راجہ داہر کے احسان کا بدلہ چکا دیا اور دونوں کے تعلقات مزید مضبوط ہو گئے۔



ahan interesting ,,,,,,,
INSHALLAH UL AZIZ phr kbhi parh lu gi :)
 
Top