ذرا سوچیے
آج سے تقریباً نصف صدی پہلے مسلمانانِ ہند سخت قسم کے مصائب و آلام کا شکار تھے ، اغیارنے اُنہیں اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنا رکھا تھا، بڑی حویلیوں کے مالک اَب بے سروسامان تھے ، کونسا ستم تھا جو اِن بے بسوں پہ نہ کیاگیا،غرض ایک درد بھری داستان ہے جسے پڑھ کر بڑے سے بڑا پتھر دل بھی اپنادل پسیج کر رہ جائے ، مگر کچھ تو ہجرت کا ذاتی شوق اور کچھ خدا کی مہربانی تھی کہ اِن بے آسرا لوگوں کے حوصلے بلند تھے ،ہر طرف (پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ ) کے نعروں کی صدائیں تھیں۔
اِن حالات کو دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ توقع بلکہ یقین ہوگیا تھا کہ اب اِسلام ایک بار پھر سر بلند ہونے والا ہے ،ظلم وستم کی اس اندھیر نگری میں ایک بار پھر امن وآشتی کا پیام عام ہونے والا ہے ، صحابہؓ کے زمانے کے عدل واِنصاف کے روشن چراغ ایک مرتبہ پھر دنیا کو چمکانے والے ہیں ،مگر افسوس صد افسوس کہ آج نصف صدی بیت جانے کے باوجود بھی کوئی تبدیلی نہ آسکی ، اُمیدیں اور آرزوئیں لے کر اِس چمن کواپنے ہاتھوں سے لگانے والے اب خود اپنی قبروں میں جاتے جارہے ہیں ۔
ان دل خراش حالات کا رونا ابھی ہم پوری طرح رونے بھی نہ پائے تھے کہ ایک نئی مصیبت اپنے تیز دانتوں اور خونخوار چہرے کے ساتھ ہمارے اِس دل وجان سے پیارے گھر میںآگُھسی،اور وہ ہے بدامنی.......بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں شاید یہ سوال اُٹھ رہا ہو کہ اِتنے اچھے جذبات رکھنے والی قوم آخر کیوں اِن حالات کا شکار ہوگئی ؟اور ایسی کونسی غلطی اسے لگی ہوئی ہے ،جسکی وجہ سے اِن خطرات میں گِھر گئی ہے؟
آئیے ہم قرآن کو دیکھتے ہیں کہ اِن حالات میں وہ ہم سے کیا کہتا ہے : (اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں ہوسکتا، اور اگر وہ تمہاری مدد چھوڑدے تو پھر کون ہے جو اُس کے بعد تمہاری مددکرسکے اور اللہ ہی پر ایمان والوں کوبھروسہ کرنا چاہیے) ۔
آئیے ہم قرآن کو دیکھتے ہیں کہ اِن حالات میں وہ ہم سے کیا کہتا ہے : (اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں ہوسکتا، اور اگر وہ تمہاری مدد چھوڑدے تو پھر کون ہے جو اُس کے بعد تمہاری مددکرسکے اور اللہ ہی پر ایمان والوں کوبھروسہ کرنا چاہیے) ۔
قرآن ہمیں جس بات کی طرف بلا رہا ہے وہ ہے ایمان اورتوکل ......،لیکن پہلے میں ایک طرف سوال کرنا چاہوں گا...اور وہ یہ کہ کبھی آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو کہ یہ جانتا ہو کہ آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھ جل جاتا ہے ، لیکن پھر بھی آگ میں ہاتھ ڈالتا رہتا ہو؟ یا کبھی آپ نے کوئی ایسا شخص دیکھا جسے اِس بات کا یقین ہو کہ زہر کھانے سے آدمی کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ،پھر بھی اپنی زندگی کی تمام تر رونقوں اور لطف اندوزیوں کے باوجود زہرکھانے کو آمادہ ہو؟ یا کوئی ایسا فرد جو مانتا ہو کہ پہاڑ سے چھلانگ لگانے کے بعد اُس کا یہ سُنہرا جیون ختم ہوجائے گا لیکن اِس کے بعد بھی ، کسی قسم کی مصیبت کے پیش آئے بغیر ، پہاڑ سے چھلانگ لگانے کو آمادہ ہو؟... ہمیں اِ س بات کاسو فیصد یقین ہے کہ نہ صرف یہ کہ آپ نے اور آپ کے آل واولاد نے کسی ایسے شخص کو نہ دیکھا ہوگا، بلکہ ہم بر ملا دعوے سے کہتے ہیں کہ آپ کی قیامت تک آنے والی نسلیں بھی کبھی ایسا انوکھا نمونہ نہ دیکھیں گی ....... پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ایمان جس کے معنی ہی حق تعالیٰ کی ذات وصفات پر یقین کرنے ، اُس پراعتقاد کامل رکھنے کے ہیں،ہم اُن تمام یقینی نظریات کے خلاف کرتے چلے جاتے ہیں او ر ہمیں اِس کا احساس تک بھی تو نہیں ہوتا کہ یہ ہم کیا کر رہے ہیں ؟؟؟جانتے ہیں کہ جنت اور جہنم حق ہیں ، عذاب اور ثواب کے وعدے برحق ہیں، پھر بھی ہم معاصی کی اِس ہیبت ناک آگ میں چھلانگ لگانے کو ہر وقت آمادہ نظر آتے ہیں ، آپ سوچیے اورضرور سوچیے کہ ایسا کیوں ہے؟ اسی کے ساتھ ساتھ میں توکل کا مطلب بھی جان لینا چاہیے ، اور وہ یہ ہے کہ درست اسباب کو اِختیار کرکے، بھروسہ اللہ ربّ العزت کی ذات پر کرنا ۔ اب ہم ناظرین کو اِس وقت مسلم دنیا کی اجتماعی حالت کی طرف دعوت فکر دینا چاہیں گے ....ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ بحیثیت مجموعی ہم میں اِن اوصاف کا کس قدر شدید بحران ہے ، چور چوری جو کر تا ہے اس کاسبب ایمان کی کمزوری کے علاوہ اور کچھ نہیں اسی طرح وطن عزیز میں حکمران سے لیکر چپڑاسی تک تمام لوگ جو کرپشن کا شکار ہیں اس کا سبب بھی یہی ہے، دوسری طرف اُمت میں پھیلی مایوسی کا سبب توکل کی کمی ہے ۔ اگر آج ہم ایک بار پھر اپنے پروردگار کی طرف خلوص دل اور نیت کے ساتھ لوٹیں اور گڑگڑا کر اُ س سے معافی مانگیں ، تو اُمید ہے کہ وہ رحیم وکریم پرودگار ہماری حالت زار پر رحم فرما کر ہمیں دین ودنیا میں سرخرو کردے گا۔
محمد ذکوان