درہ آدم خیل میدان جنگ بننے تک

  • Work-from-home

Don

Administrator
Mar 15, 2007
11,035
14,651
1,313
Toronto, Ca
درہ آدم خیل میدان جنگ بننے تک

ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




درہ آدم خیل آج کل مقامی شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان میدان جنگ بنا ہوا



صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور سے محض چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر قبائلی علاقہ درہ آدم خیل آج کل مقامی شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان میدان جنگ بنا ہوا ہے۔



اسلحہ کی فیکٹریوں اور منشیات کی دکانوں کی وجہ سے دنیا میں شہرت پانے والا قبائلی علاقہ درہ آدم خیل خود میدان جنگ بن جائے گا اس کے دھندلے دھندلے اشارے گزشتہ ڈیڑھ دو برسوں سے عام آدمی کو تو دکھائی دے رہے تھے لیکن حکومت کو نہیں۔

شدت پسندی کی درہ میں آمد کا طریقہ کار وہی تھا جو دیگر علاقوں میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ بات شروع پہلے سی ڈیز کی دوکانوں کو نشانہ بنانے، پھر حجاموں اور لڑکیوں کے سکولوں کو دھمکی آمیز خطوط ارسال کرنے اور پھر انصاف کی فراہمی کے لیے اپنی عدالتیں قائم کرنے سے ہوئی۔ لیکن حکومت خاموش رہی۔

سرکاری رٹ کے خاتمے کے خلاف سکیورٹی فورسز صرف اس وقت متحرک ہوئیں جب گزشتہ دنوں ان کے اپنے فوجی اور چار ٹرک اغواء ہوئے۔ جب بات یہاں تک آن پہنچی تب حکومت حرکت میں آئی۔

قبائلی علاقوں میں سکیورٹی کے سابق سیکرٹری بریگیڈئر ریٹائرڈ محمود شاہ کہتے ہیں کہ ’پچھلے ایک سال سے یہاں شدت پسند متحرک ہوئے ہیں اور اس علاقے کو پشاور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں حملوں کے لیے ’سٹیجنگ پوائنٹ‘ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ وزیرستان کے لوگ یہاں سے ہو کر جاتے رہے ہیں‘۔


آفریدی قبائل کے مسکن درہ آدم خیل میں متحرک مقامی طالبان کی قیادت مفتی الیاس، طارق اور خالد خان جیسے رہنما کر رہے ہیں۔ ان کے کالعدم فرقہ ورانہ تنظیم لشکر جھنگوی سے روابط بتائے جاتے ہیں۔ سرکاری ذرائع کو شک ہے کہ یہ لوگ درہ آنے سے قبل کراچی میں بھی فرقہ ورانہ وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔ درے میں اہل تشیع کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی بھی اس بات کی مظہر ہے۔

محمود شاہ درے کے فرقہ ورانہ پہلو پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’لشکر جھنگوی کے موجودہ سربراہ قاری ظفر آج کل وزیرستان میں مقیم ہیں۔ گزشتہ دنوں کرم ایجنسی میں جب فرقہ ورانہ کشیدگی بڑھی تو درے کے شدت پسندوں نے یہاں سے گزرنے والوں کے نام چیک کرنے شروع کر دیے۔ جس پر انہیں شک ہوتا کہ یہ شیعہ ہے تو اسے اتار لیتے تھے۔ اسی طرح تین افراد کو انہوں نے ہلاک بھی کیا تھا‘۔

سی ڈیز اور حجاموں کے بعد مقامی طالبان نے ایک مقامی مبینہ جرائم پیشہ شخص عامر سید عرف ’چرگ‘ (مرغی) کے گروہ کے خلاف گزشتہ ستمبر میں کارروائی کی تھی جس کے نتیجے میں ستائیس لوگ ہلاک ہوئے تھے۔


اپنے آپ کو اسلامی طالبان کہنے والے مقامی شدت پسندوں کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اختلافات کی بھی خبریں تھیں۔ ایک آدھ چھوٹا تصادم بھی ہوا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف دستی اشتہارات بھی تقسیم کیے تھے جن میں ایک دوسرے کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا۔

لیکن اب بیت اللہ مسحود کی سربراہی میں قائم تحریک طالبان انہی جیسی دیوبندی سوچ کی حامل چھوٹی بی تنظیموں کا ایک اجتماع ہے۔ ان تنظیموں میں جہاد کی خواہش اسی کی دہائی سے تھی۔ طالبان ترجمان مولوی عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی کے تمام اختلافات ختم ہوچکے ہیں اور اب سب ایک پلیٹ فارم سے لڑ رہے ہیں۔ یہ جو درہ میں لڑ رہے ہیں ہمارا حصہ بلکہ نہایت اہم حصہ ہیں‘۔

عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ درہ کے شدت پسندوں میں وزیرستان جیسے علاقوں کے جنگجو بھی شامل ہیں۔ ان کے تانے بانے افغانستان سے بھی ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے ایک سابق چیف جسٹس یہاں کی ایک مسجد میں امامت بھی کرتے رہے ہیں۔
عسکری ماہرین کے مطابق درہ میں اگر ابتدائی دنوں میں کوئی کارروائی کر لی جاتی تو شاید بات اتنی نہ پھیلتی
 
Top