خبردار…ہوشیار

  • Work-from-home

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
رمضان المبارک کے مقدس مہینوں میں شیطان کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن شیطان کب باز آتا ہے…پیچھے اپنے چیلوں کو تیار کر کے جاتا ہے…

اس لئے ہوشیار …خبردار

اس سال بھی سارا سال مخلوط مارننگ شوز لائیو ٹھمکے لگانے والے اینکرز اور میراثی اب دوپٹے، ٹوپیاں لیکر لائیو رمضان ٹرانسمیشن میں پاکستانی قوم کو رمضان میں کرنے والے اعمال سکھا ئیں گے۔کہا جاتا ہے کہ ان پروگراموں میں آوازیں بکتی ہیں، دعائیں بکتی ہیں، افطاری اور سحری بکتی ہے، آنسو بھی فروخت کیئے جاتے ہیں اور لوگوں کے غم بھی بیچے جاتے ہیں، اور تو اور جو مہمان ان پروگراموں میں آتے ہیں ان کو بھی ٹھیکیدار ہی لے کر آتے ہیں…انا للہ وانا الیہ راجعون

جب بندر کے ہاتھ ماچس آئے گی پھر جنگل تو جلے گا،جب قصائی سرجن مقر ر ہوں گئے تو پھر دل دماغ ، چکن بوٹی کے بھاو ’’ پھٹوں’’ پہ بکیں گئے، جب ریٹنگ کی دوڑ میں دوڑتا ہوا ‘‘ظالم میڈیا‘‘قومی مفاد’’ کا تعین کرے گا تو پھر سب بکے گا، اچھا بھی بکے گا ، برا بھی بکے گا، عزت و غیرت بکے گی ، حمیت و قومیت بکے گی ، سب بکے گا ، جو ہے وہ بھی بکے گا جو نہیں ہے وہ بھی بکے گا۔

سو یہاں تو ریٹنگ کی دوڑ ہے ،اس لئے سب بکتا ہے،زندگی بکتی ہے، موت بکتی ہے،مذہب بکتا ہے، قومی مفاد بکتاہے ، حقوق کے نام پہ نفرت انگیز نظریات بکتے ہیں، اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکتی ہیں ، تہذیب کے چیتھڑے بکتے ہیں، ہوشیاری کے نام پہ مکاری بکتی ہے، تنقید کے نام پہ جہالت بکتی ہے، مزاح کے نام پہ تذلیل بکتی ہے،برہنگی بکتی ہے،ہار بکتی ہے ، جیت بکتی ہے،آنسو بکتے ہیں سسکیاں بکتی ہیں،رونے والے بھی بکتے ہیں اور رولانے والے بھی ،قاتل بھی بکتاہے اور مقتول بھی ، ظالم بھی بکتا ہے مظلوم بھی۔ہر چیز بکاؤ ہے تو رمضان بھی بکے گا۔

رمضان المبارک کا حسین موسم جیسے ہی آتا ہے یہ گندے انڈے ابل ابل کر باہر نکل آتے ہیں۔پچھلے چند سالوں سے الیکٹرانک میڈیا پر دین کا مذاق اڑانے کا ایک نیا سلسلہ جاری و ساری ہے۔کہیں عامر لیاقت جیسے مسخرے کو ’’ معروف عالم دین‘‘ کہا جا رہا ہے تو کہیں سفید کرتے میں ملبوس داڑھی منڈا آدمی لائیو استخارے کر تے پائے جا رہے ہیں۔انہیں ایک کال موصول ہوتی ہے وہ وہیں سیٹ پر بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اور چند لمحوں کے لئے سٹوڈیو میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ حد ادب استخارہ ہو رہا ہے۔پھر وہ اچانک آنکھیں کھولتے اور فرزندان توحید کو بتاتے کہ استخارے کی روشنی میں آپ کو یوں کرنا چاہیے۔استخارہ سب کو معلوم ہے کہ بندے اور رب کا معاملہ ہے۔لیکن نیم خواندہ سماج میں کارپوریٹ میڈیا نے اس تعلق کے بیچ بھی ایک صاحب کو دین کا مذاق اڑانے کے لئے لا بٹھایا۔اور تو اور وہ اداکارائیں جن کی زندگیاں سینما اور سکرین کے بدبودار ماحول میں گزر گئیں رمضان مقدس میں قرآن مجید کی تفسیریں بیان کرتی پائی جا رہی ہیں۔

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جب چینلز کے لیے روایتی بے ہودگی قدرے مشکل ہو جاتی ہے تو یہ اپنے اسی چھمک چھلو برگیڈ کو دوپٹہ اوڑھا کر لوگوں کے ’’ تزکیہ نفس‘‘ پر لگا دیتے ہیں۔گویا کچھ بھی ہو جائے سکرین اور ناتراشیدہ چھمک چھلو برگیڈ کا رشتہ ختم نہیں کرنا۔انہی روایتی چہروں کو ماڈلنگ کراتے ہوئے نئے روپ میں پیش کر دیتا ہے اور عوام ان کے جھانسے میں آ کر اپنی آخرت برباد کرتے رہتے ہیں۔

خدا فریبی اور خلق فریبی دراصل خود فریبی ہے۔ ہر سال رمضان میں ایک خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ رمضان المبارک کے احترام میں اسٹیج ڈراموں کے دن کے شوز معطل رہیں گے لیکن آج کل ٹی وی چینلز پر رمضان نشریات اور مارننگ شوز دیکھنے کے بعد دل چاہتا ہے کہ اسٹیج ڈراموں کی بجائے اس رمضان نشریات پر پابندی لگنی چاہئے۔ لیکن کیا کریں کہ ہمارے معیار دہرے ہیں، انصاف کے پیمانے منافقت پر مبنی ہیں۔

اسٹیج ڈراموں کی فحاشی… فحاشی ہے

مگر رمضان نشریات ، مارننگ شوز، ایوارڈ شوز اور حیا سوز ڈراموں کی فحاشی… فحاشی نہیں۔

حکمرانوں کی کوتاہی کے ساتھ ساتھ عوام الناس بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔ سوشل میڈیا پر سب رمضان کی ان بے ہودی نشریات کے خلاف ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ٹی وی دیکھتا ہی نہیں۔ مگر اعدادوشمار اور حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ یہ ’’فرزند ان توحید‘‘ بھی رمضان نشریات کے خلاف ’’سٹیٹس‘‘ دینے کے بعد وہی نشریاتی رمضان شو دیکھنے بیٹھتے ہیں جس میں بال کھولے کوئی حسینہ فحاشی کے خلاف درس دے رہی ہوتی ہے۔ اگر ہم لوگ ایسے پرگراموں کی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو ان شوز کی ریٹنگ اتنی زیادہ نہ ہوتی۔

ہماری کل حقیقت اتنی ہے کہ جن لوگوں کے خلاف ہم فیس بک پر احتجاج کرتے ہیں،حقیقی زندگی میں ان کے ساتھ ایک ’’ سیلفی ‘‘ لینے کو ترستے ہیں۔ہم صرف باتوں کے مسلمان ہیں۔ انڈیا کے خلاف باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن جیسے ہی انڈیا کی کوئی فلم ریلیز ہوتی ہے تو ہم ہی لوگ اُن سینماؤں کو بھر رہے ہوتے ہیں جہاں یہ دکھائی جا رہیں ہوتی ہیں۔

چند سالوں سے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا آزاد کیا ہو ا، فہاشی، عریانیت، بے حیائی کا کھلے عام دور دورہ ہوگیا۔ جس چینل کا جی چاہتا ہے ڈراموں، اشتہاروں کے نام سے فہش،عریاں اور بے حیا قسم کے سین شامل کرکے کھلے عام دکھاتا ہے۔ ا س پر شرم و ندامت بھی محسوس نہیں کرتے۔ نہیں معلوم اس عریانیت اور فہاشی سے کونسی خدمت وہ کرنا چاہتے ہیں۔ برقی میڈیا کی ا س بے مہار آزادی نے گھر گھر داخل ہوکر ہماری عزت و آبرو اور ہماری مشرقی روایات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ حکومتی مشینری لگتا ہے چین کی بانسری بجارہی ہے۔ اْسے کچھ نظر ہی نہیں آتا، جو صاحب اختیار ان امور کی نگرانی پر مامور ہیں وہ صرف اس فکر اور تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کا عہدہ برقرار رہے۔چینلز کیا کررہے ہیں، کیا دکھارہے ہیں انہیں اس کی پروا نہیں۔ نجی چینل پر بڑھتی ہوئی عریانیت اور فہاشی کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ لیکن سب کے سب آنکھوں پر نہ معلوم کس قسم کی پٹی بندھی ہے کہ انہیں کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم اخلاقی طور پہ زندہ بھی ہیں یا پوری طرح مر چکے ہیں؟ یا بے حسی تہہ در تہہ ہمارے ووجود پہ یوں مسلط ہو چکی ہے کہ ہم اندھے ،گونگے اور بہرے ہو چکے ہیں ،لکس سٹائل ایوارڈ آتے ہیں میڈیا برہنہ ہو جاتا ہے ،ہم لطف اندوز ہوتے ہیں ،پھکڑ پن سے بھرپور بیہودہ مذاق سے مزین مزاحیہ ڈرامے آتے ہیں ،ہم قہقہے لگاتے ہیں ،مارننگ شوز کی دوڑ میں نمود اور نمائش کی دکان سجتی ہے ،ہم آنکھیں پھاڑ کے مبہوت ہو جاتے ہیں پھر رمضان کا مہینہ آتا ہے ،سب برہنہ چیزوں کو پاکیزہ رنگوں کے غلافوں میں بند کر دیا جاتا ہے تو ہم ان غلافوں میں بند کچھ تعفن زدہ وجودوں سے اٹھتی بدبو پہ دھیان دیے بغیر ،سروں پہ ٹوپیاں اور دوپٹے سجا کے استغفار میں مشغول ہو جاتے ہیں .سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟،شاید ہم بہت بے بس ہیں ،ہم روٹی کپڑے اور مکان کے جھنجھٹوں میں الجھے ہوئے ہیں ہمارے پاس سوچنے سمجھنے کا وقت بھی نہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم کبھی کبھی جوش میں آتی اپنی سوچ اور فکر کو کچھ لمحوں کے کھیل تماشوں کی خاطر تھپک تھپک کے سلا دیتے ہیں۔

ممکن ہے یہ پروگرام بند نہ ہوں تو مرچ مسالوں اور چٹخاروں سے بھرپور ایسے تماشوں کا بائیکاٹ تو کر سکتے ہیں ،سستے اور گھٹیا طریقوں سے شہرت حاصل کرنے والے چینل دیکھنا تو چھوڑ سکتے ہیں ،اپنی عبادت اور رمضان کی رحمتوں کو خالص رکھنے کے لیے فقط ایک ماہ کے لئے ہی سہی اپنا ٹی وی تو بند کر سکتے ہیں ، حیا کا جز تو اپنا سکتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک بھی کام کرنا ہمارے بس سے باہر ہے تو ہم فقط استغفار کر سکتے ہیں اور ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر مزید عذابوں کا انتظار کر سکتے ہیں کہ پہلے ہی ہماری قوم بے شمار فتنوں اور عذابوں سے دوچار ہے .اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کی رحمتیں اور برکتیں بھرپور طریقے سے سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور عبادات کو قبول فرمائے (آمین)



٭…٭…٭

زبیر طیب

 
Top