جوابِ شکوہ

  • Work-from-home

Dark

Darknes will Fall
VIP
Jun 21, 2007
28,885
12,579
1,313
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پہ گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گروسرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالہء بیباک مرا

! پیرِ گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی
! بولے سیّارے، سرِعرشِ بریں ہے کوئی
! چاند کہتا تھا، نہیں، اہلِ زمیں ہے کوئی
! کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی

کچھ جوسمجھامرے شکوےکوتورضواں سمجھا
! مجھے جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

! تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
! عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
؟ تاسرِعرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
؟ آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا

! غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں
! شوخ و کستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
؟ تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے
عالمِ کیف ہے، دانائے رموز کم ہے
ہاں،مگرعجزکےاسرارسےنامحرم ہے

ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
! بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ ترا
! کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تو نے
ہم سخن کردیا بندوں کو خدا سے تو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگرہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر، اور پِسر آزر ہیں

بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے

! وہ بھی تھے کہ یہی مایہء رعنائی تھا
! نازشِ موسمِ گل لالہء صحرائی تھا
جو مسلمان تھا االلہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا یہی ھرجائی تھا

کسی یکجائی سے اب عہدِ غلامی کرلو،
! ملتِ احمدِ مرسل کو مقامی کرلو

! کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہدو یہی آئینِ وفاداری ہے

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جونہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
؟ کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے

؟ صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
؟ نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے
؟ میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
؟ میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے

؟ تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
! ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

کیا کہا؟ بہرِ مسلماں ہے فقط وعدہء حور
! شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل سے فاطرِ ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوہء طور تو موجود ہے موسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کانبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

! فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

؟ کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار
؟ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
؟ کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار
؟ ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس
! کچھ بھی پیغامِ مُحمّد کا تمہیں پاس نہیں

جاکے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا، تو غریب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
نام لیتا ہے اگر ہمارا، تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امرا نشّہء دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملّتِ بیضا غربا کے دم سے

واعظِ قوم کی پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے

شور ہے ہوگئے دنیا میں مسلمان نابود
؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدّن میں ہنود
! یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
عدل اس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے پاک
شجرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نمناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستیء فوق الادراک

خودگدازی نمِ کیفیتِ صہبایش بود
خالی ازخویش شدن صورتِ منیاش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے کیے نشتر تھا
اس کے آئینہء ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوتِ بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
! پھر پسر قابل میراثِ پدر کیونکر ہو

ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریّا پہ مقیم
! پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم

تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی
یوں ہی باتیں ہیں، کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خودکُشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار
تم اخوّت سے گریزاں، وہ اخوّت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بکنار

اب تلک یاد ہے قوموں کہ حکایت ان کی
! نقش ہے صفحہء ہستی پہ صداقت ان کی

مثلِ انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب سے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کشِ تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا؟ بادیہ پیما نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری سے، حجابِ رخِ لَیلا نہ رہے

گِلہء جور نہ ہو، شکوہء بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو

عہدِ نَو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا، نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملتِ ختمِ رُسل شعلہ پہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنّابی ہے
! یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محرومِ ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا
تو وہ یوسف سے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیریک بانگِ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

نخلِ شمع استی ودشِعلہ دودریشہء تو
عاقبت سوز بود سایہء اندیشہء تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشّہء مے کو تعلّق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتیء حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصرِ نورات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے، یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا، خودداری کا

کیوں ہراساں ہے صَہِیلِ فرسِ اعدا سے
نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے

چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری

وقتِ فرصت ہی کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثلِ بُوقید ہے غنچے میں، پریشاں ہوجا
زحمت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مایہ، تو ذرّے سے بیاباں ہوجا
نغمہء موج سے ہنگامہء طوفاں ہوجا

قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے

ہو نہ یہ پھول، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے

چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رَفَعنَا لَکََ ذِکرَک دیکھے

مردمِ چشمِ زمیں، یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا
گرمیء مہر کی پروردہ، ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری
ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم ترے ہی


 
Top