عقیدہِ حیات فی القبور و حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر حصہ اول

  • Work-from-home

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
View attachment 111570 بسم الله الرحیم الرحيم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسول الکریم، اما بعد، امت کی بد نصیبی ہے کہ وفات النبی صلی الله عليه وسلم کا مسئلہ جو قران و حدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ھے آج اختلافی مسئلہ بنا ھوا ھے اور اس کو اختلافی بنانے میں بنیادی کردار اس امت کے علماء و مشائخ کا ھی ھے ورنہ قران کا ارشاد بالکل واضح ھے کہ "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ"
(اے پیغمبر) تم بھی مر جاؤ گے اور یہ بھی مر جائیں گے
39-Az-Zumar : 30 ترجمہ فتح محمد جالندھری
اس کے علاوہ خلیفہ اول ابوبکرؓ کا مشہور خطبہ جو انہوں نے نبی صلی الله عليه وسلم کی وفات کے موقع پر دیا تھا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ھے- اس میں بھی ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے آیت "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ" سے ھی استدلال کرتے ہوئے " فإن محمدا قد مات" کے تاریخی الفاظ کے ساتھ نبی صلی الله عليه وسلم کی موت کی تصدیق فرمائی تھی- زندگی اور موت کی عام فہم تعریف (definition) یہ ھے کہ جسم اور روح کا اتصال (ملاپ) زندگی ھے جبکہ جسم اور روح کا انفصال (علیحدگی) موت ھے - لیکن ان تمام عقلی و نقلی دلائل و براھین کے باوجود مدرسہ دیوبند کے بانی مبانی مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب اپنی مشہور کتاب "آب حیات" میں لکھتے ہیں:

[ رسول الله صلی الله عليه وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال اب تک برابر مستمر ھے اس میں انقطاع یا تبدل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ھونا واقع نہیں ھوا ]
(آب حیات صفحہ 36)
یعنی نبی صلی الله عليه وسلم کی دنیاوی زندگی اب تک برابر قائم و دائم ھے اور آپ صلی الله عليه وسلم کی روح اور جسم کا تعلق کبھی منقطع نہیں ھوا یعنی ایسا نہیں ھوا آپ صلی الله عليه وسلم کی وفات ھوگئی اور آپ صلی الله عليه وسلم دنیاوی زندگی ختم ھونے کے بعد عالم برزخ میں پہنچ کر برزخی زندگی گزار رہے ھوں-
یوں تو مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کی یہ بات ھی قران و حدیث اور اجماع صحابہؓ کے یکسر خلاف ھے لیکن اس پر ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ھے کہ کیا صحابہ نے نعوذ باالله ثم نعوذ باالله زندہ نبی کی ھی تدفین کردی؟؟؟

بہرحال یہ تو تذکرہ تھا مدرسہ دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی صاحب کا لیکن اسی مدرسے کے پہلے فارغ التحصیل شاگرد مولانا محمود الحسن صاحب نے سورة فاتحہ کی آیت" إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" کی تفسیر کے ذریعے جو مشرکانہ عقیدہ پھیلایا وہ بھی ملاحظہ ھو:

[ اس آیت شریفہ سے معلوم ھوا کہ اس ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بلکل ناجائز ھے، ہاں اگر کسی مقبول بندے کو واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر اس سے استعانت ظاہری کرے تو یہ جائز ھے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ھی سے استعانت ھے ] (تفسیر عثمانی حاشیہ سورة فاتحہ)

ظلم کی انتہا ھے کہ علمائے دیوبند نے صرف اس گمراہی کی لوگوں تعلیم ھی نہیں دی بلکہ ایسے واقعات بھی گھڑے جن کے ذریعے اپنی اس گمراہی کو سند جواز فراہم کر سکیں- مثلاً دیوبند کے مشہور عالم اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب "کرامات امدادیہ" کے صفحہ 18 پر اپنے پیر حاجی امداد الله کا ایک واقعہ نقل کیا ھے کہ ایک مرتبہ حاجی امداد الله کا ایک مرید حج کے لئے جارہا تھا سمندر کا سفر تھا کسی دور دراز مقام پر کشتی چٹان سے ٹکرا گئی اور ڈوبنے والی تھی تو حاجی امداد الله کے مرید نے میلوں دور سے اپنے پیر روشن ضمیر کو مدد کے لئے پکارا اور کہا " اس وقت سے زیادہ اور کونسا وقت امداد کا ھوگا " چناچہ حاجی امداد الله نے میلوں دور پہنچ کر کشتی کو کاندھا دیکر ڈوبنے سے بچالیا-
بہرحال قران تو اس طرح کی باتوں کو نا صرف شرک قرار دیتا ھے بلکہ یہ بھی واضح کر دیتا ھے کہ جن ہستیوں کو مشرک لوگ غائبانہ اور مافوق الاسباب پکارتے ہیں وہ عالم الغیب نہیں ہیں- عالم الغیب صرف اور صرف الله تعالیٰ کی ذات ھے-

اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ حاجی امداد الله کے مرید نے مایوسی کی حالت میں بجائے الله تعالیٰ کو پکارنے کے اپنے پیر کو کیوں پکارا ؟؟ کیا مرید کو نہیں معلوم تھا کہ غائبانہ اور مافوق الاسباب سننا الله کی صفت ھے تو اس سوال کا جواب بھی اسی مدرسہ دیوبند سے شایع ھونے والے رسالے ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں موجود ھے ملاحظہ ھو:

[ صوفیاء نے لکھا ھے کہ مردان حق ریاضت و مجاہدہ سے ایسی قوتیں اور ملکات بھی حاصل کرلیتے ہیں جو خداوند ذوالمنن کی خاص قدرتوں سے مشابہ ھوتی ھیں ]
(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند صفحہ 32 جنوری 1958 نگراں اعلیٰ قاری طیب)

پتہ چلا مرید نے جو کچھ کیا اپنے "بزرگوں" کی تعلیم کی وجہ سے ھی تھا کہ ان کے بزرگ مراقبہ اور ریاضت کے ذریعے ایسی طاقت حاصل کر لیتے ہیں جو نعوذ باالله الله تعالیٰ جیسی ھوتی ھے-

دعا ھے الله تعالیٰ انسانیت کو علماء سوء کے مکر و فریب سے اپنی پناہ میں رکھے- آمین
http://www.Islamic-belief.net
aap ne sirf makhsoos maktaba e fikar se ikhtilaaf ki bunyad par nishana banaya hai aur Quraan our Hadees se kisi Qisam ki koi daleel nahi di jis se kisi bhi maktaba e fikar ke dalaail ka jawab ho

Ikhtilafati masaail ke liye dalaail dejiye na keh sirf ilzamaat laga kar ummat main ikhtilafat paida karain
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
View attachment 111570 بسم الله الرحیم الرحيم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسول الکریم، اما بعد، امت کی بد نصیبی ہے کہ وفات النبی صلی الله عليه وسلم کا مسئلہ جو قران و حدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ھے آج اختلافی مسئلہ بنا ھوا ھے اور اس کو اختلافی بنانے میں بنیادی کردار اس امت کے علماء و مشائخ کا ھی ھے ورنہ قران کا ارشاد بالکل واضح ھے کہ "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ"
(اے پیغمبر) تم بھی مر جاؤ گے اور یہ بھی مر جائیں گے
39-Az-Zumar : 30 ترجمہ فتح محمد جالندھری
اس کے علاوہ خلیفہ اول ابوبکرؓ کا مشہور خطبہ جو انہوں نے نبی صلی الله عليه وسلم کی وفات کے موقع پر دیا تھا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ھے- اس میں بھی ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے آیت "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ" سے ھی استدلال کرتے ہوئے " فإن محمدا قد مات" کے تاریخی الفاظ کے ساتھ نبی صلی الله عليه وسلم کی موت کی تصدیق فرمائی تھی- زندگی اور موت کی عام فہم تعریف (definition) یہ ھے کہ جسم اور روح کا اتصال (ملاپ) زندگی ھے جبکہ جسم اور روح کا انفصال (علیحدگی) موت ھے - لیکن ان تمام عقلی و نقلی دلائل و براھین کے باوجود مدرسہ دیوبند کے بانی مبانی مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب اپنی مشہور کتاب "آب حیات" میں لکھتے ہیں:

[ رسول الله صلی الله عليه وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال اب تک برابر مستمر ھے اس میں انقطاع یا تبدل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ھونا واقع نہیں ھوا ]
(آب حیات صفحہ 36)
یعنی نبی صلی الله عليه وسلم کی دنیاوی زندگی اب تک برابر قائم و دائم ھے اور آپ صلی الله عليه وسلم کی روح اور جسم کا تعلق کبھی منقطع نہیں ھوا یعنی ایسا نہیں ھوا آپ صلی الله عليه وسلم کی وفات ھوگئی اور آپ صلی الله عليه وسلم دنیاوی زندگی ختم ھونے کے بعد عالم برزخ میں پہنچ کر برزخی زندگی گزار رہے ھوں-
یوں تو مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کی یہ بات ھی قران و حدیث اور اجماع صحابہؓ کے یکسر خلاف ھے لیکن اس پر ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ھے کہ کیا صحابہ نے نعوذ باالله ثم نعوذ باالله زندہ نبی کی ھی تدفین کردی؟؟؟

بہرحال یہ تو تذکرہ تھا مدرسہ دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی صاحب کا لیکن اسی مدرسے کے پہلے فارغ التحصیل شاگرد مولانا محمود الحسن صاحب نے سورة فاتحہ کی آیت" إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" کی تفسیر کے ذریعے جو مشرکانہ عقیدہ پھیلایا وہ بھی ملاحظہ ھو:

[ اس آیت شریفہ سے معلوم ھوا کہ اس ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بلکل ناجائز ھے، ہاں اگر کسی مقبول بندے کو واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر اس سے استعانت ظاہری کرے تو یہ جائز ھے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ھی سے استعانت ھے ] (تفسیر عثمانی حاشیہ سورة فاتحہ)

ظلم کی انتہا ھے کہ علمائے دیوبند نے صرف اس گمراہی کی لوگوں تعلیم ھی نہیں دی بلکہ ایسے واقعات بھی گھڑے جن کے ذریعے اپنی اس گمراہی کو سند جواز فراہم کر سکیں- مثلاً دیوبند کے مشہور عالم اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب "کرامات امدادیہ" کے صفحہ 18 پر اپنے پیر حاجی امداد الله کا ایک واقعہ نقل کیا ھے کہ ایک مرتبہ حاجی امداد الله کا ایک مرید حج کے لئے جارہا تھا سمندر کا سفر تھا کسی دور دراز مقام پر کشتی چٹان سے ٹکرا گئی اور ڈوبنے والی تھی تو حاجی امداد الله کے مرید نے میلوں دور سے اپنے پیر روشن ضمیر کو مدد کے لئے پکارا اور کہا " اس وقت سے زیادہ اور کونسا وقت امداد کا ھوگا " چناچہ حاجی امداد الله نے میلوں دور پہنچ کر کشتی کو کاندھا دیکر ڈوبنے سے بچالیا-
بہرحال قران تو اس طرح کی باتوں کو نا صرف شرک قرار دیتا ھے بلکہ یہ بھی واضح کر دیتا ھے کہ جن ہستیوں کو مشرک لوگ غائبانہ اور مافوق الاسباب پکارتے ہیں وہ عالم الغیب نہیں ہیں- عالم الغیب صرف اور صرف الله تعالیٰ کی ذات ھے-

اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ حاجی امداد الله کے مرید نے مایوسی کی حالت میں بجائے الله تعالیٰ کو پکارنے کے اپنے پیر کو کیوں پکارا ؟؟ کیا مرید کو نہیں معلوم تھا کہ غائبانہ اور مافوق الاسباب سننا الله کی صفت ھے تو اس سوال کا جواب بھی اسی مدرسہ دیوبند سے شایع ھونے والے رسالے ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں موجود ھے ملاحظہ ھو:

[ صوفیاء نے لکھا ھے کہ مردان حق ریاضت و مجاہدہ سے ایسی قوتیں اور ملکات بھی حاصل کرلیتے ہیں جو خداوند ذوالمنن کی خاص قدرتوں سے مشابہ ھوتی ھیں ]
(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند صفحہ 32 جنوری 1958 نگراں اعلیٰ قاری طیب)

پتہ چلا مرید نے جو کچھ کیا اپنے "بزرگوں" کی تعلیم کی وجہ سے ھی تھا کہ ان کے بزرگ مراقبہ اور ریاضت کے ذریعے ایسی طاقت حاصل کر لیتے ہیں جو نعوذ باالله الله تعالیٰ جیسی ھوتی ھے-

دعا ھے الله تعالیٰ انسانیت کو علماء سوء کے مکر و فریب سے اپنی پناہ میں رکھے- آمین
http://www.Islamic-belief.net
" اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "

میں نے نماز (یعنی سورۃ الفاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے ۔ پس اس کا نصف حصہ میرا ہے اور نصف میرے بندے کا ہے ۔ اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا۔ "

(پھربات جاری رکھتے ہوئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:

"(سورۃ فاتحہ) پڑھو، جب بندہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے

تو اللہ عز و جل فرماتا ہے " میرے بندے نے میری حمد بیان کی"

(بندہ) کہتا ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

تو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری ثنا بیان کی"۔

بندہ کہتا ہے مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

تو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری عظمت بیان کی"

بندہ کہتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

تو اللہ فرماتا ہے "یہ (حصہ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا"

بندہ کہتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ

تو اللہ فرماتا ہے "یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گا جس کا اس نے سوال کیا"۔

صحیح مسلم : 395
 
Feb 28, 2017
11
4
3
IMG_20170516_142144.jpg
قارئین! ابویحیی نورپوری لکھتےہیں:__ [...شریعت اسلامیہ کے کچھ کلی قواعد و قوانین میں چند ایک استثناءات رکھ دی گئی ہیں۔ ان استثناءات کی وجہ سے کلی قوانین کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔نصوص شرعیہ سے ثابت شدہ استثناءات کو خارج کرنے کے بعد باقی قاعدہ پھر کلی ہی رہتا ہے...] _ قارئین! یہ ابویحیی نورپوری کی محض لفاظی اور اداکاری ہے،اپنےھم عقیدہ لوگوں اپنےدام فریب میں پھنساۓ رکھنےکی ایک چال ہے- ورنہ سماع وحیات فی القبرکی بحث میں خود موصوف کا طرزعمل درج بالا اصول کےبالکل الٹ ہے، بالفاظ دیگرموصوف نےاستثناءات کی آڑ میں قانون وکلیۂ پر ہی ہاتھ صاف کردیا ہے . . جس کی میں اهلحديثوں کی طرف سےشائع کردہ کتاب "المسندفي عذاب القبر" كےحوالےسے اپنی متعدد پوسٹوں میں نشاندھی کرچکا ہوں . . مکرر عرض ہےکہ قلیب بدرکےواقعےکی تمام ترتفصیلات بمع جزئیات بخاری میں موجود ھےجس سے پتہ چلتا ہےکہ قلیب بدرکےمردوں کا زندہ ہونا اور سننا استثنائی معاملہ ہےعام قانون وکلیہ نہیں ہے . . لیکن موصوف سمیت تمام اھلحدیثوں کا عقیدہ ھے کہ ھرمردہ قبرمیں دفن ہونےکےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی چاپ سنتا ہے- نتیجتا" قرآن کےبیان کردہ دو زندگی دو موت کےعام قانون وکلیہ سےصرف قلیب بدر کےمردے ھی نہیں بلکہ تمام مردے مستثنی‎(exempted)‎‏ ھوگئے-اب قرآن کی وہ آیت جس میں دو زندگی دو موت کاقانون بیان ھواھےمحض تلاوت کیلئےھےاس قانون و کلیہ کا اطلاق‎ (implement)‎‏ قبرمیں مدفون کسی مردہ لاشے پرنہیں ھوگا __ قارئین! خلاصۂ کلام یہ کہ ام المومنین عائشہ ؓ کی وضاحت . . عمربن خطاب ؓ کےاستفسار . . ابن عمر ؓ کی حدیث کےالفاظ انس ؓ کےشاگرد قتادہ ؒ کی تشریح اور عائشہ ؓ کےشاگرد عروۃ ؒ کی تفسیرسب کچھ بالاۓطاق رکھ کر استثناءات کی آڑ میں قانون و کلیہ کا صاف انکار کردیا گیا _ اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابن تیمیہ نےتو عائشہ ؓ کو ضروریات دین تک سےناواقف قرار دےدیا- ( انالله وانااليه راجعون)
www.islamic-belief.net
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
View attachment 111571قارئین! ابویحیی نورپوری لکھتےہیں:__ [...شریعت اسلامیہ کے کچھ کلی قواعد و قوانین میں چند ایک استثناءات رکھ دی گئی ہیں۔ ان استثناءات کی وجہ سے کلی قوانین کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔نصوص شرعیہ سے ثابت شدہ استثناءات کو خارج کرنے کے بعد باقی قاعدہ پھر کلی ہی رہتا ہے...] _ قارئین! یہ ابویحیی نورپوری کی محض لفاظی اور اداکاری ہے،اپنےھم عقیدہ لوگوں اپنےدام فریب میں پھنساۓ رکھنےکی ایک چال ہے- ورنہ سماع وحیات فی القبرکی بحث میں خود موصوف کا طرزعمل درج بالا اصول کےبالکل الٹ ہے، بالفاظ دیگرموصوف نےاستثناءات کی آڑ میں قانون وکلیۂ پر ہی ہاتھ صاف کردیا ہے . . جس کی میں اهلحديثوں کی طرف سےشائع کردہ کتاب "المسندفي عذاب القبر" كےحوالےسے اپنی متعدد پوسٹوں میں نشاندھی کرچکا ہوں . . مکرر عرض ہےکہ قلیب بدرکےواقعےکی تمام ترتفصیلات بمع جزئیات بخاری میں موجود ھےجس سے پتہ چلتا ہےکہ قلیب بدرکےمردوں کا زندہ ہونا اور سننا استثنائی معاملہ ہےعام قانون وکلیہ نہیں ہے . . لیکن موصوف سمیت تمام اھلحدیثوں کا عقیدہ ھے کہ ھرمردہ قبرمیں دفن ہونےکےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی چاپ سنتا ہے- نتیجتا" قرآن کےبیان کردہ دو زندگی دو موت کےعام قانون وکلیہ سےصرف قلیب بدر کےمردے ھی نہیں بلکہ تمام مردے مستثنی‎(exempted)‎‏ ھوگئے-اب قرآن کی وہ آیت جس میں دو زندگی دو موت کاقانون بیان ھواھےمحض تلاوت کیلئےھےاس قانون و کلیہ کا اطلاق‎ (implement)‎‏ قبرمیں مدفون کسی مردہ لاشے پرنہیں ھوگا __ قارئین! خلاصۂ کلام یہ کہ ام المومنین عائشہ ؓ کی وضاحت . . عمربن خطاب ؓ کےاستفسار . . ابن عمر ؓ کی حدیث کےالفاظ انس ؓ کےشاگرد قتادہ ؒ کی تشریح اور عائشہ ؓ کےشاگرد عروۃ ؒ کی تفسیرسب کچھ بالاۓطاق رکھ کر استثناءات کی آڑ میں قانون و کلیہ کا صاف انکار کردیا گیا _ اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابن تیمیہ نےتو عائشہ ؓ کو ضروریات دین تک سےناواقف قرار دےدیا- ( انالله وانااليه راجعون)
www.islamic-belief.net
without reference taqareer se koi faida nahi kam az kam evidences to share kejiye hum bhi kaafi dilchaspi rakhte hain yeh sab sunne aur jaanne main
 
Feb 28, 2017
11
4
3
جناب! آپ کی اطلاع کیلۓ مولانا قاسم نانوتوی کی طرح نبی علیہ السلام کی موت کا سرے سےانکار کردیاجاۓ __ یا __ موت کےبعد قبرمیں زندہ مانا جاۓ دونوں صورتوں میں قرآن کی واضح وصریح آیات کا انکار لازم آتا ھے-جوبیان کرتی ہیں کہ مرنےوالےقیامت کےدن دوبارہ زندہ ہونگے-
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
آپ اتنی کاپی پیسٹ تو کر ہی لیتی ہیں
بس التجا اتنی سی ہے کہ حوالہ بھی دیا کیجئے

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں

کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم (کُلَّمَا کَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ) يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَي الْبَقِيْعِ، فَيَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ، وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ، غَداً مُؤَجَّلُونَ، وَإنَّا، إِنْ شَاءَ اﷲُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ. اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيْعِ الغَرْقَدِ.

’’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ہاں قیام فرما ہوتے تو (اکثر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (اہلِ قبرستان سے خطاب کرکے) فرماتے : تم پر سلام ہو، اے مومنوں! جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہارے پاس آ گئی تم بہت جلد اسے حاصل کرو گے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اﷲ! بقیعِ غرقد والوں کی مغفرت فرما۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها، 2 : 669، رقم : 974
2. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب الأمر بالاستغفار للمؤمنين، 4 : 93، رقم : 2039
3. أبويعلي، المسند، 8 : 199، رقم : 4758
 

Untamed-Heart

❤HEART❤
Hot Shot
Sep 21, 2015
23,621
7,455
1,113
آپ قرآن اور احادیث کی پیروی کی بجائے مولانا قاسم نانوتوی صاحب کی پیروی نا کریں
جو آپ کو بہتر لگے انکی پیروی کیجئے مگر اشتعال اور مذہبی منافرت سے پرہیز کیجئے
 
Top