اسلام علیکم ورحمہ اللہ علیہ : آج میں عقیدہِ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عام حیات فی القبور پر بات کروں گا ۔۔۔
آج کے مختلف فرقے وہ زور و شور سے قبور میں "میت کے زندہ" ہونے کا قائل ہیں ۔ کہ مردہ کو قبر میں زندہ کر دیا جاتا ہے ، اس کی روح قبر میں لوٹا دی جاتی ہے (قیامت سے پہلے ہی ) ۔۔ اور ساتھ میں سماعِ الموتٰی کے قائل ہیں ۔۔ اور زور و شور سے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم (دنیوی) پر بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اسی طرح زندہ ہیں جیسے وفات شریف سے پہلے تھے ، ان پر امت کے اعمال پیش کیئے جاتے ہیں تفصیلاً قبر میں ، وہ صلوٰۃ و سلام بھی سنتے ہیں ، امت کے حال و احوال بھی دیکھتے رہتے ہیں ۔ یعنی اس عقیدے کی آڑ میں شرک کا دروازاہ کھولا ہوا ہے کہ مردے ہمارے پکار سنتے ہیں ، ان کی ارواح ہماری مدد کو آتی ہیں ، میت اپنے زائیرین کو پہچانتی ہے اور پتا نہیں کیا کیا ان کے عقائد ہیں ان لوگوں کے جو انہوں نے اس عقیدے کی آڑمیں بنا رکھے ہیں ۔۔۔
آج میں سب سے پہلے ان کے عقائد بیان کروں گا اور اپنا عقیدہ بھی بیان کروں گا جو اہلِ سنت والجماعت کا ہے ۔۔
یہ بات ذہین نشیں رکھئیے کہ خاص طور پر حیاتی لوگ آج تک اپنے کسی ایک عقیدے پر متفق نہیں ہوسکے ہیں ۔۔۔ آپ خود ان کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لیں ۔۔
سب سے پہلے اب رضاخانی حضرات کا عقیدہ دیکھ لیں
" انبیاء اکرام کی زندگی حقیقی ، حسی و دنیاوی ہے۔۔۔انبیاء اکرام کی ازواج قبورمطہرہ میں پیش کی جاتی ھیں انبیاء اکرام کو اور وہ ان کے ساتھ شب باشی بھی فرماتے ہیں
(نقلِ کفر ، کفر نباشد)
المفوظ جلد 3 صفحہ 69
آپ یہ بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
شعیہ حضرات کا عقیدہ
"مسجد نبوی کی چھت کے شکستہ حصے کی تعمیر کے لیے معمار و مزدور آجا رھے تھے مسجد کی چھت پر۔ان حالات کو دیکھ کر کچھ لوگوں نے کھا حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے کہ ھمیں اجازت دیں قبر مبارک میں جھانک لیں۔اس پر کھا حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے اجازت نہ دی اور کہا مجھے ڈر ھے کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں کی بینائی ہی نہ چلی جائے۔ کہ جھانکنے والا دیکھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رھے ھوں یا ازواج سے -----(آگے لکھنے کی ھمت نہیں، سب سمجھدار ھو، اللہ معاف فرمائے سب کو)
اصول کافی –کتاب الحجت- صفحہ 286
اب ان بریلوی نما دیوبندیوں کا عقیدہ بھی دیکھ لیں جو ـدیوبندیت کا لیبل لگا کر ہمیں بدنام کر رہے ہیں ۔۔۔
عقیدہِ خروجِ روح
عبدالشکور ترمذی نے لکھا: ہدیۃ الحیران صفحہ 329 پر
آبِ حیات کے اس نظریہ پر تمام علمائے دیوبند کا اجماع ہے
انبیاء کی ارواح کا اخراج جسم سے نہیں ہوتا ۔۔ارواح سمٹ جاتی ہیں اور دل کے اندر بند کر دیا جاتا ہے روح کو اور حواس معطل ہو جاتے ہیں،بعد از موت زائل ِحیات نہیں ہے۔ انبیاء کی حیات ، دنیوی حیات ہے برزخی نہیں اور ہے بھی برابر کہ موت آنے پر حیات میں کوئی تبدیلی نہیں
مولانا سرفراز صفدر لکھتے ہیں
"موت کا مفہوم عرفِ عام میں جان نکل جانے کا نام ہے یعنی جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو اس کو موت کہتے ہیں، علماء کا معنٰی کا کیا ہے کہ روح کا تعلق جسم سے منقطع ہو جائے۔قرآن و حدیث کے نصوص و ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ روح وقت سے نکالی جاتی ہے آسمانوں کی طرف لے جائی جاتی ہے اور اپنی مقررہ جگہ پر رکھی جاتی ہے"
(تسکین الصدور صفحہ 212)
جمہور علماء اسلام موت کا معنٰی انقطاع الروح عن البدن ہی کرتے ہیں
(تسکین الصدور صفحہ 216)
دلائلِ صریحہ سے ثابت ہے کہ موت کے وقت روح جسم سے نکلای جاتی ہے
( تسکین الصدور صفحہ 102)
اب یا تو مفتی شکور ترمذی کی بات مانو یا مولانا صفدر صاحب کی ! ایک کی مانو تو اجماع کا منکر ہو کے اہلِ سنت سے خارج ہونا پڑے گا ، دوسرے کی مانو تو قرآن و حدیث ،دلائلِ صریحہ کا منکر ہونا پڑے گا۔
عجب مشکل میں پھنسا ہوں – جو یہ ٹانکا تو وہ اجڑا۔۔ جو وہ ٹانکا تو یہ اجڑا
اسکے بعد ڈاکٹر خالد محمود صاحب پی ایچ ڈی لندن کا نظریہ
"خدائی وعدہ پورا ہوا ، اللہ تعالٰی نے وعدہ پورا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک ،اگر جسم سے نکل کر ، جسم کے اندر ہی جو خالی حصے ہوتے ہیں مثلاً قلب دل ہے۔۔دل کے اندر پورے کا پورا گوشت نہیں ۔۔پورا خون بھی نہیں ۔۔ اس بدن کے اندر خلاء بھی تو ہے تو اگر پورے بدن سے روح کا انفضال بھی ہو ، مگر وہ بدن کے اسی حصے کے اندر رہے اور قلب کے اس حصے کے اندر رہے جس میں یہ خلا تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ روح بدن سے نکلی اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نہیں نکلی۔
اگر کہو بدن سے نکلی ، باقی بدن سے اور اندر رہی اس خلاء مین جو بدن کے اندر ہے تو جب اس قسم کے بہت احتمالات کی بہت گنجائش ہو سکتی ہے ۔
(یادگار خطباتِ خالد جلد 1 صفحہ 277)
تو یہ جنا ب بھی ایک جگہ منکرِ اجماع ہیں (شکوری فتوے کی رو سے) اور دوسری جگہ قرآن و سنت کے منکر ہیں (صفدری فتوے سے)۔
اب ذرا مولانا صفدر اوکاڑوی صاحب کا عقیدہ بھی دیکھ لیں
عقیدہِ اعادہ روح
(روح کی واپسی)
مفتی عبد الشکور ترمذی ہدیۃ الحیران صفحہ 354 پر لکھتے ہیں
کہ "دلائلِ قطعیہ سے ہر ایک میت کے لیئے اعادہ روح ثابت ہے۔ "
اعادہ روح اور حیاتِ جسمانی کا دوام و استمرار اس گزارش کے پیشِ نظر ان احادیث سے قدرِ مشترک کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےلیئے روضہ اطہر میں دائمی طور پر اعادہ روھ اور جسمانی حیات کے دوام و استمرار کا ثبوت ہو جاتا ہے
(ہدیۃ الحیران صفحہ 365)
انبیاء و غیر انبیاء سب کے لیئے بعد از وفات اعادہ ارواح الی الابدان احادیث صحیحہ سے ثابت ہے
(ہدیۃ الحیران صفحہ 368)
شھداء کے اجساد میں انکی ارواح موجود ہوتی ہیں اور روح کے موجود ہونے کی وجہ سے ان کا جسم زندہ اور ان کو جسمانی حیات حاصل ہوتی ہے۔
(حیاتِ انبیاء کرامؑ صفحہ 121۔عبدالشکور ترمذی)
سرفراز صاحب نے لکھا
تسکین صدور باب دوم 'اعادہ روح' میں صفحہ 106