فیوضِ بے فیضؔ و فکرِ فیضؔ

  • Work-from-home

Just_Like_Roze

hmmmm ...
Super Star
Aug 25, 2011
7,884
5,089
1,313

بے داغ سبزے کی بہار اب روٹھ چکی ہے،خون کے دھبے دھلنا تو دور کی بات اب تو برسات بھی لہو کی برستی ہے۔ اسی لمحے مجھے یوں محسوس ہو اجیسے فیض میرے سامنے کھڑے ایک ہی مصرعہ باربار گنگنا رہے ہیں کہ؂ شاید کبھی افشا ہو، نگاہوں پہ تمھاری۔ فوٹو: فائل

اپنی کتابوں سے بھری گرد آلود میز پر اگر کوئی چیز مجھے چمکتی دمکتی نظر آ رہی تھی تو وہ ایک دعوت نامہ تھا جس کے بارے میں مجھے صد فی صد یقین تھا کہ قاصد کی غلطی سے میری لکھنے والی میز کی زینت بنا ہے۔ وگرنہ کہاں میں اور کہاں فکرِ فیضؔ ۔

20
نومبر کو فیض احمد فیضؔ کے یوم وصال کی مناسبت سے عالم میں چہار سو فیض کانفرنس، فیض میلے اور نجانے فیض کے نام پر کس کس چیز کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔فیض کے نام پر ایک ایسی ہی ایک تقریب میری کارگاہ کے جوار میں واقع شہر کے ایک معروف ہوٹل میں بھی سجنے جا رہی تھی۔غالباًحقِ ہمسائیگی کا خیال رکھا گیا تھا جو مجھے بھی اس میں شرکت کا دعوت نامہ دے دیا گیا وگرنہ اپنے خامہ کی صریر سے تو میں خود بھی پوری طرح آشنا نہ تھا اور نا ہی قلمکاروں سے اپنا کچھ ایسا تعلق تھا کہ وہ اس اہم موقع پرعاجز کو یاد رکھتے لیکن یہ میرے لئے ایک اعزاز تھا کہ مجھے اس تاریخی تقریب میں تاریخ کا حصہ بننے کے لئے منتخب کیا گیا۔ لمحہ لمحہ گن کر گزارا جانے لگا بالآخر وہ ساعتِ مقرر آ ہی گئی جس نے جان صلیبِ انتظار پر لٹکا رکھی تھی۔ خراماں خراماں ہی چلتے ہوٹل پہنچے حالانکہ عقیدہِ فیضؔ کے حاملین کے لئے تو ’’پابجولاں‘‘چلنا واجبِ عین ہے۔مگر چونکہ ہماری فیضؔ سے نسبت کچے دھاگے سے بھی کمزور تھی اس بنا پر ہم نے خود کو ان اصولوں سے مبرامتصور کر رکھا تھا۔

ہوٹل کے مین ہال کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے جب سماعتوں سے ’’فکر محبوس ہے ،گفتار پہ تعزیریں ہیں‘‘ کی آواز ٹکڑائی۔ تقریب کا آغاز تھا اور ہم تاخیر کا شکار ہوچکے تھے۔ ایک معروف دانشور صاحب ’’فکر محبوس ہے ،گفتار پہ تعزیریں ہیں‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ ان دانشور صاحب کے بارے میں عام تاثر یہ ہی تھا کہ ان کا قلم شاہِ وقت کی امانت ہے اور یہ اس قدر امین ہیں کہ کبھی بھی بددیانتی کے مرتکب نہیں پائے گئے۔سر راہ، سڑکوں، چوراہوں میں انہیں ’’سکرین دانشور‘‘ کے اضافی نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا کیونکہ یہ ہمیشہ ٹیلی ویژن سکرین پر ہی اپنی دانش و حکمت کے موتی بکھیڑا کرتے تھے۔ ؂

لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں

اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

دانشور صاحب کی لڑکھڑاتی زبان سے فیض کا یہ شعر بمشکل ادا ہوا۔جب ہاتھ ظالموں کی اعانت میں مصروف ہوں اور زبان شاہان کی قصیدہ خوانی میں، تو پھر منہ سے فیضؔ کا ذکر کسی طور نہیں جچتا۔مگر کون سمجھائے کہ فکرِ فیضؔ کے وارثان تو اب وہی لوگ ہیں جو دورِ فیض میں کوئے یار سے سوئے دار کے درمیان مقیم تھے۔جو کبھی فیض کو ملک کا باغی اور زمانے کا غدار قرار دیتے تھے اورکبھی فیض پر ملحد ہونے کا کیچڑ اچھالتے تھے ۔ کبھی تو وہ فیض کے کمیونزم کے داعی ہونے کو جرم کو بھی قابل گردن زنی سمجھتے تھے۔ان لوگوں نے ہمیشہ فیض پر اپنے ہاتھوں سے سنگ برسائے مگر جب انہی پتھروں سے گردشِ زمانہ نے فیض کا مجسمہ تراش لیا تو خانہِ فیض میں فیض کے بت کی پرستش کے لئے بھی سب سے زیادہ یہی لوگ بے تاب نظر آئے۔
دانشور صاحب کے بعد ایک اور نہایت معروف شخصیت فیض کی شخصیت کے روشن پہلو اجاگر کرنے کے لئے روسڑم پر آئی۔اس شخصیت کو بھی اپنے تئیں قلمکار ہونے کا زعم تھا ۔

حرف دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے

پہلا شعر ہی نہایت قاتل تھا مجھے یقین ہونے لگا کہ قلمکار صاحب پر جو ’’سرقہِ فکر و زمین‘‘کا الزام لگتا ہے آج یہ موقع کو مناسب جانتے ہوئے اس سے اپنا دامن دھونے کی کوشش کریں گے مگر یہ کیا کہ انہوں نے بھی اپنے پیش رو کی روش پر چلتے ہوئے فیض کے ساتھ اپنے تعلق کو اس طرح بیان کیا کہ ایک لمحے کو مجھے لگا کہ فیض کی روح اسی ہال میں کہیں کسی کونے میں پژ مردہ خاطر اشک لہو بہا رہی ہے کیونکہ قلمکار صاحب پورے زوروں پر یہ ثابت کر رہے تھے کہ جب فیض تیرِ الزام سے گھائل ہوا کرتے تھے تو اکثر ان کے ہاں آ جایا کرتے تھے اور یہ ان کی دلجوئی کیا کرتے تھے ۔ جبکہ میرا اس بات پر ایمان کی حد تک یقین تھا کہ فیض نے ’’پھر کوئی آیا دلِ زار‘‘ جیسی نظمیں انہی قلمکاروں کے لئے لکھیں تھیں جو دورِ ابتلا میں فیض کو درِ زندان تک چھوڑ کرخود قصر سلطانی کے گنبد پراپنے لئے پناہ ڈھونڈا کرتے تھے۔ایسے ہی دعوے داروں کے بارے میں فیض نے کہا ہو گاکہ؂

’’کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے‘‘

فیض جب کال کوٹھریوں کو اپنی تنہائیوں سے مزین کر رہے تھے اس وقت یہ سب جشن طرب میں اس طرح مشغول تھے کہ انہیں خود کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔ایسی ہی بے چین ساعتوں کی نذر کرتے ہوئے قلم فیضؔ سے یہ صدا آئی تھی کہ؂

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی ٹپکتی رہی

آج جو یہ تمام لوگ فیض کے عشاق بن کر سامنے آئے ہیں اس وقت کہاں تھے جب فیض غداری کا مقدمہ بھگت رہا تھا ؟آ ج فیض کا نام لیتے نہ تھکنے والے اس وقت فیض کو کیوں تنہا چھوڑ گئے تھے جب فیض نے انہی کی خاطر رخِ بادِ مخالف میں چلنے کا فیصلہ کیا تھا؟؂

دیکھیں ہے کون کون، ضرورت نہیں رہی
کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم

تاریخ گواہ ہے کہ جب فیض پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا تھا اس زمانے میں ان نام نہاد قلمکاروں کے قلم بھی خاموش ہوتے چلے گئے تھے۔کہیں کوئی آواز فیض کی حمایت میں بلند نہیں ہوئی۔ مگر آج ، آج ہر کوئی خود کو ہمنوا ئے فیض ، وارثِ فکر فیض اور دست و بازوئے فیض ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔؂
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کس کو بیچنے الماس و گوہر جائیں گے

خدا جانے یہ محفل کس ڈگر پر چل رہی تھی ۔ نجانے کون کون آ کر فیض سے اپنے راہ و رسم کے قصے سنا رہا تھا،میری تو سمجھ سے یہ سب کچھ بالا تر تھا۔ میں تو جہانِ تخیل کے دریچوں سے کبھی فیض کو بیڑیوں میں جکڑے زندان خانوں میں اپنے ’قید خانے کے ساتھیوں‘ کے لئے ترانے لکھتا دیکھ رہا تھا تو کبھی فرقت و محبتِ وطن میں ؂
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن، مگر کیا کیجئے

جیسے جواہر پارے تراشتے دیکھ رہا تھا۔اب مائیک ایک گلوکار صاحب سنبھالے ہوئے تھے جو صرف اور صرف یہ بتا رہے تھے کہ فیض نے ایک غزل کا مطلع لکھا، وہ وہیں موجود تھے، انہوں نے وہ مطلع گنگنایا اور فیض صاحب جھومنے لگے اور بولے کہ تم نے تو اس غزل کا حق ادا کر دیا ہے۔غرض کہ اک بازارِ فیض سجا ہوا تھا جس میں فیض صاحب جیسے منکسر المزاج شخص کو ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق ایک جنس کی طرح ’’فروخت ‘‘ کر رہا تھا ۔ غالباً فیض کو اپنی اسی سادہ دلی کی سزا کے طور پر تنہا، مہیب و سنسان راتوں میں خونِ جگر میں انگلیاں ڈبو کراپنی کیفیات کو الفاظ میں ڈھال ڈھال کر قرطاس پر منتقل کرنا پڑتا تھا۔ ؂
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیازمندیوں سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

اب ایک مزدور رہنما مائیک تھامے فیض کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے اور یہ مزدور رہنما وہ تھے جو مالکان کے منظورِ نظر ہونے کے باعث گزشتہ پانچ سالوں سے مسلسل ہر سال یونین کا الیکشن جیت کر صدر منتخب ہو رہے تھے۔ جو اپنے لئے تو کئی پلاٹ حاصل کر چکے تھے مگر ان کو منتخب کرنے والے مزدور آج بھی ہر مہینے کے آخر پر یہ ہی سوچ رہے ہوتے تھے کہ اپنے خون پسینے کی اس قلیل سی کمائی میں اب کس طرح گزارہ کریں گے۔؂
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پر غریبوں کا لہو بہتا ہے

سیاست کے ایوانوں سے مزدوروں، دہقانوں تک ہر کوئی فیض کے نام کی مالا جپتا ہے مگر عملی زندگی میں کوئی بھی فکر فیض کو داخل نہیں ہونے دیتا۔ کبھی کبھی میں سوچنے لگتا کہ اگر ارض خدا کے کعبے پر یہ بت نہ ہوتے تو پھر فیض کو بھی غالبؔ و اقبالؔ ؒ کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر ہونے کا اعزاز نہ حاصل ہو سکتا۔ یہ زمانے کی تلخیاں ہی تھیں جس نے فیض کو فیض ؔ بنایا۔ یہ متاعِ لوح و قلم چھننے کا ہی غم تھا کہ فیض کو خونِ جگر میں اپنی انگلیاں ڈبونا پڑیں۔

میرا دل اب اس محفل سے اکتا گیا تھا۔میں فکرِفیض پر بے فیض لوگوں کو یوں’’ فیوض‘‘ لٹاتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سو واپس اپنے ٹھکانے کی طرف چل دیا۔میں فیض سے کہنا چاہتا تھا کہ میرے لب آزاد نہیں ہیں، زبان بھی میری نہیں رہی اور سچ کی بھی موت ہو چکی ہے۔سر اٹھا کر چلنے والے منوں مٹی تلے سو رہے اب، اور جو باقی ہیں وہ ظلم کے دست جو بن چکے ہیں۔حسنِ جاناں بھی اب دلکش نہیں رہا ،عرضِ تمنا بھی دہرانے والے خاموش ہو چکے۔اب نہ کوئی عاجزی سیکھتا ہے نہ کوئی غریبوں کی حمایت، نہ کوئی یاس و ارمان کے دکھ، درد کے معنی سمجھتا ہے نہ کوئی زیر دستوں کے مصائب۔اب ویرانوں میں بہار نہیں آتی، اب بیماروں کو بھی قرار نہیں ملتا۔ظلم کے ماتے اب لب کھولنے پر آمادہ نہیں، اب آہوں، فریادوں سے کچھ حشر بھی بپا نہیں ہوتا۔جرأتِ تحقیق قصہِ پارینہ بن چکی،اب کسی کو دستِ قاتل جھٹک دینے کی توفیق بھی نہیں ملتی۔بے داغ سبزے کی بہار اب روٹھ چکی ہے،خون کے دھبے دھلنا تو دور کی بات اب تو برسات بھی لہو کی برستی ہے۔اب تو ، اب تو۔۔۔مگر اسی لمحے مجھے یوں محسوس ہو اجیسے فیض میرے سامنے کھڑے ہوئے ایک ہی مصرعہ باربار گنگنا رہے ہیں کہ؂
 
  • Like
Reactions: Fanii

Bird-Of-Paradise

TM ki Birdie
VIP
Aug 31, 2013
23,935
11,040
1,313
ώόήȡέŕĻάήȡ

بے داغ سبزے کی بہار اب روٹھ چکی ہے،خون کے دھبے دھلنا تو دور کی بات اب تو برسات بھی لہو کی برستی ہے۔ اسی لمحے مجھے یوں محسوس ہو اجیسے فیض میرے سامنے کھڑے ایک ہی مصرعہ باربار گنگنا رہے ہیں کہ؂ شاید کبھی افشا ہو، نگاہوں پہ تمھاری۔ فوٹو: فائل

اپنی کتابوں سے بھری گرد آلود میز پر اگر کوئی چیز مجھے چمکتی دمکتی نظر آ رہی تھی تو وہ ایک دعوت نامہ تھا جس کے بارے میں مجھے صد فی صد یقین تھا کہ قاصد کی غلطی سے میری لکھنے والی میز کی زینت بنا ہے۔ وگرنہ کہاں میں اور کہاں فکرِ فیضؔ ۔

20
نومبر کو فیض احمد فیضؔ کے یوم وصال کی مناسبت سے عالم میں چہار سو فیض کانفرنس، فیض میلے اور نجانے فیض کے نام پر کس کس چیز کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔فیض کے نام پر ایک ایسی ہی ایک تقریب میری کارگاہ کے جوار میں واقع شہر کے ایک معروف ہوٹل میں بھی سجنے جا رہی تھی۔غالباًحقِ ہمسائیگی کا خیال رکھا گیا تھا جو مجھے بھی اس میں شرکت کا دعوت نامہ دے دیا گیا وگرنہ اپنے خامہ کی صریر سے تو میں خود بھی پوری طرح آشنا نہ تھا اور نا ہی قلمکاروں سے اپنا کچھ ایسا تعلق تھا کہ وہ اس اہم موقع پرعاجز کو یاد رکھتے لیکن یہ میرے لئے ایک اعزاز تھا کہ مجھے اس تاریخی تقریب میں تاریخ کا حصہ بننے کے لئے منتخب کیا گیا۔ لمحہ لمحہ گن کر گزارا جانے لگا بالآخر وہ ساعتِ مقرر آ ہی گئی جس نے جان صلیبِ انتظار پر لٹکا رکھی تھی۔ خراماں خراماں ہی چلتے ہوٹل پہنچے حالانکہ عقیدہِ فیضؔ کے حاملین کے لئے تو ’’پابجولاں‘‘چلنا واجبِ عین ہے۔مگر چونکہ ہماری فیضؔ سے نسبت کچے دھاگے سے بھی کمزور تھی اس بنا پر ہم نے خود کو ان اصولوں سے مبرامتصور کر رکھا تھا۔

ہوٹل کے مین ہال کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے جب سماعتوں سے ’’فکر محبوس ہے ،گفتار پہ تعزیریں ہیں‘‘ کی آواز ٹکڑائی۔ تقریب کا آغاز تھا اور ہم تاخیر کا شکار ہوچکے تھے۔ ایک معروف دانشور صاحب ’’فکر محبوس ہے ،گفتار پہ تعزیریں ہیں‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ ان دانشور صاحب کے بارے میں عام تاثر یہ ہی تھا کہ ان کا قلم شاہِ وقت کی امانت ہے اور یہ اس قدر امین ہیں کہ کبھی بھی بددیانتی کے مرتکب نہیں پائے گئے۔سر راہ، سڑکوں، چوراہوں میں انہیں ’’سکرین دانشور‘‘ کے اضافی نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا کیونکہ یہ ہمیشہ ٹیلی ویژن سکرین پر ہی اپنی دانش و حکمت کے موتی بکھیڑا کرتے تھے۔ ؂

لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں

اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

دانشور صاحب کی لڑکھڑاتی زبان سے فیض کا یہ شعر بمشکل ادا ہوا۔جب ہاتھ ظالموں کی اعانت میں مصروف ہوں اور زبان شاہان کی قصیدہ خوانی میں، تو پھر منہ سے فیضؔ کا ذکر کسی طور نہیں جچتا۔مگر کون سمجھائے کہ فکرِ فیضؔ کے وارثان تو اب وہی لوگ ہیں جو دورِ فیض میں کوئے یار سے سوئے دار کے درمیان مقیم تھے۔جو کبھی فیض کو ملک کا باغی اور زمانے کا غدار قرار دیتے تھے اورکبھی فیض پر ملحد ہونے کا کیچڑ اچھالتے تھے ۔ کبھی تو وہ فیض کے کمیونزم کے داعی ہونے کو جرم کو بھی قابل گردن زنی سمجھتے تھے۔ان لوگوں نے ہمیشہ فیض پر اپنے ہاتھوں سے سنگ برسائے مگر جب انہی پتھروں سے گردشِ زمانہ نے فیض کا مجسمہ تراش لیا تو خانہِ فیض میں فیض کے بت کی پرستش کے لئے بھی سب سے زیادہ یہی لوگ بے تاب نظر آئے۔
دانشور صاحب کے بعد ایک اور نہایت معروف شخصیت فیض کی شخصیت کے روشن پہلو اجاگر کرنے کے لئے روسڑم پر آئی۔اس شخصیت کو بھی اپنے تئیں قلمکار ہونے کا زعم تھا ۔

حرف دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے

پہلا شعر ہی نہایت قاتل تھا مجھے یقین ہونے لگا کہ قلمکار صاحب پر جو ’’سرقہِ فکر و زمین‘‘کا الزام لگتا ہے آج یہ موقع کو مناسب جانتے ہوئے اس سے اپنا دامن دھونے کی کوشش کریں گے مگر یہ کیا کہ انہوں نے بھی اپنے پیش رو کی روش پر چلتے ہوئے فیض کے ساتھ اپنے تعلق کو اس طرح بیان کیا کہ ایک لمحے کو مجھے لگا کہ فیض کی روح اسی ہال میں کہیں کسی کونے میں پژ مردہ خاطر اشک لہو بہا رہی ہے کیونکہ قلمکار صاحب پورے زوروں پر یہ ثابت کر رہے تھے کہ جب فیض تیرِ الزام سے گھائل ہوا کرتے تھے تو اکثر ان کے ہاں آ جایا کرتے تھے اور یہ ان کی دلجوئی کیا کرتے تھے ۔ جبکہ میرا اس بات پر ایمان کی حد تک یقین تھا کہ فیض نے ’’پھر کوئی آیا دلِ زار‘‘ جیسی نظمیں انہی قلمکاروں کے لئے لکھیں تھیں جو دورِ ابتلا میں فیض کو درِ زندان تک چھوڑ کرخود قصر سلطانی کے گنبد پراپنے لئے پناہ ڈھونڈا کرتے تھے۔ایسے ہی دعوے داروں کے بارے میں فیض نے کہا ہو گاکہ؂

’’کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے‘‘

فیض جب کال کوٹھریوں کو اپنی تنہائیوں سے مزین کر رہے تھے اس وقت یہ سب جشن طرب میں اس طرح مشغول تھے کہ انہیں خود کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔ایسی ہی بے چین ساعتوں کی نذر کرتے ہوئے قلم فیضؔ سے یہ صدا آئی تھی کہ؂

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی ٹپکتی رہی

آج جو یہ تمام لوگ فیض کے عشاق بن کر سامنے آئے ہیں اس وقت کہاں تھے جب فیض غداری کا مقدمہ بھگت رہا تھا ؟آ ج فیض کا نام لیتے نہ تھکنے والے اس وقت فیض کو کیوں تنہا چھوڑ گئے تھے جب فیض نے انہی کی خاطر رخِ بادِ مخالف میں چلنے کا فیصلہ کیا تھا؟؂

دیکھیں ہے کون کون، ضرورت نہیں رہی
کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم

تاریخ گواہ ہے کہ جب فیض پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا تھا اس زمانے میں ان نام نہاد قلمکاروں کے قلم بھی خاموش ہوتے چلے گئے تھے۔کہیں کوئی آواز فیض کی حمایت میں بلند نہیں ہوئی۔ مگر آج ، آج ہر کوئی خود کو ہمنوا ئے فیض ، وارثِ فکر فیض اور دست و بازوئے فیض ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔؂
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کس کو بیچنے الماس و گوہر جائیں گے

خدا جانے یہ محفل کس ڈگر پر چل رہی تھی ۔ نجانے کون کون آ کر فیض سے اپنے راہ و رسم کے قصے سنا رہا تھا،میری تو سمجھ سے یہ سب کچھ بالا تر تھا۔ میں تو جہانِ تخیل کے دریچوں سے کبھی فیض کو بیڑیوں میں جکڑے زندان خانوں میں اپنے ’قید خانے کے ساتھیوں‘ کے لئے ترانے لکھتا دیکھ رہا تھا تو کبھی فرقت و محبتِ وطن میں ؂
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن، مگر کیا کیجئے

جیسے جواہر پارے تراشتے دیکھ رہا تھا۔اب مائیک ایک گلوکار صاحب سنبھالے ہوئے تھے جو صرف اور صرف یہ بتا رہے تھے کہ فیض نے ایک غزل کا مطلع لکھا، وہ وہیں موجود تھے، انہوں نے وہ مطلع گنگنایا اور فیض صاحب جھومنے لگے اور بولے کہ تم نے تو اس غزل کا حق ادا کر دیا ہے۔غرض کہ اک بازارِ فیض سجا ہوا تھا جس میں فیض صاحب جیسے منکسر المزاج شخص کو ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق ایک جنس کی طرح ’’فروخت ‘‘ کر رہا تھا ۔ غالباً فیض کو اپنی اسی سادہ دلی کی سزا کے طور پر تنہا، مہیب و سنسان راتوں میں خونِ جگر میں انگلیاں ڈبو کراپنی کیفیات کو الفاظ میں ڈھال ڈھال کر قرطاس پر منتقل کرنا پڑتا تھا۔ ؂
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیازمندیوں سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

اب ایک مزدور رہنما مائیک تھامے فیض کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے اور یہ مزدور رہنما وہ تھے جو مالکان کے منظورِ نظر ہونے کے باعث گزشتہ پانچ سالوں سے مسلسل ہر سال یونین کا الیکشن جیت کر صدر منتخب ہو رہے تھے۔ جو اپنے لئے تو کئی پلاٹ حاصل کر چکے تھے مگر ان کو منتخب کرنے والے مزدور آج بھی ہر مہینے کے آخر پر یہ ہی سوچ رہے ہوتے تھے کہ اپنے خون پسینے کی اس قلیل سی کمائی میں اب کس طرح گزارہ کریں گے۔؂
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پر غریبوں کا لہو بہتا ہے

سیاست کے ایوانوں سے مزدوروں، دہقانوں تک ہر کوئی فیض کے نام کی مالا جپتا ہے مگر عملی زندگی میں کوئی بھی فکر فیض کو داخل نہیں ہونے دیتا۔ کبھی کبھی میں سوچنے لگتا کہ اگر ارض خدا کے کعبے پر یہ بت نہ ہوتے تو پھر فیض کو بھی غالبؔ و اقبالؔ ؒ کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر ہونے کا اعزاز نہ حاصل ہو سکتا۔ یہ زمانے کی تلخیاں ہی تھیں جس نے فیض کو فیض ؔ بنایا۔ یہ متاعِ لوح و قلم چھننے کا ہی غم تھا کہ فیض کو خونِ جگر میں اپنی انگلیاں ڈبونا پڑیں۔

میرا دل اب اس محفل سے اکتا گیا تھا۔میں فکرِفیض پر بے فیض لوگوں کو یوں’’ فیوض‘‘ لٹاتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سو واپس اپنے ٹھکانے کی طرف چل دیا۔میں فیض سے کہنا چاہتا تھا کہ میرے لب آزاد نہیں ہیں، زبان بھی میری نہیں رہی اور سچ کی بھی موت ہو چکی ہے۔سر اٹھا کر چلنے والے منوں مٹی تلے سو رہے اب، اور جو باقی ہیں وہ ظلم کے دست جو بن چکے ہیں۔حسنِ جاناں بھی اب دلکش نہیں رہا ،عرضِ تمنا بھی دہرانے والے خاموش ہو چکے۔اب نہ کوئی عاجزی سیکھتا ہے نہ کوئی غریبوں کی حمایت، نہ کوئی یاس و ارمان کے دکھ، درد کے معنی سمجھتا ہے نہ کوئی زیر دستوں کے مصائب۔اب ویرانوں میں بہار نہیں آتی، اب بیماروں کو بھی قرار نہیں ملتا۔ظلم کے ماتے اب لب کھولنے پر آمادہ نہیں، اب آہوں، فریادوں سے کچھ حشر بھی بپا نہیں ہوتا۔جرأتِ تحقیق قصہِ پارینہ بن چکی،اب کسی کو دستِ قاتل جھٹک دینے کی توفیق بھی نہیں ملتی۔بے داغ سبزے کی بہار اب روٹھ چکی ہے،خون کے دھبے دھلنا تو دور کی بات اب تو برسات بھی لہو کی برستی ہے۔اب تو ، اب تو۔۔۔مگر اسی لمحے مجھے یوں محسوس ہو اجیسے فیض میرے سامنے کھڑے ہوئے ایک ہی مصرعہ باربار گنگنا رہے ہیں کہ؂
nyc
 

Guriya_Rani

❥❥ღ ☆º ❥❥SuB Ki LaAdAli GuRiYa❥❥ღ ☆º ❥❥
VIP
Oct 18, 2013
24,325
8,905
1,313
hmmmmmmmmm is blue heading me link showe ho raha hai:eek:
 
Top