نئی بیٹری، منٹوں میں چارج

  • Work-from-home

Just_Like_Roze

hmmmm ...
Super Star
Aug 25, 2011
7,884
5,089
1,313

سائنسدانوں نے بیٹریوں کے آہستہ چارج ہونے کا حل ایسی بیٹری کی صورت میں نکالا ہے جو دو منٹ میں 70 فیصد چارج ہوسکتی ہے rootfun,net

ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ کبھی نہ کبھی ایسا ضرور ہوا ہوگا: گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ یا بریک ڈائون میں بیچارے موبائل فون کی بیٹری بھی ڈائون ہوگئی اور بجلی آتے ہی موبائل فون چارجنگ پر لگادیا۔ ابھی دس منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ بجلی پھر سے چلی گئی اور... آگے کا قصہ آپ خود ہی جانتے ہوں گے۔

اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کا معاملہ تو اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ ہنساتے کم اور رلاتے زیادہ ہیں۔ دیر سے چارج ہوتے ہیں اور جلدی ڈسچارج ہوجاتے ہیں۔ کچھ اور ساتھ میں ہو یا نہ ہو، چارجر ضرور ساتھ رکھنا پڑتا ہے کہ نہ جانے کس گلی میں ’’موبائل کی بیٹری ڈائون‘‘ ہوجائے۔

خیر! چارجنگ کے ماروں، بے چاروں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اب سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی (این ٹی یو) کے انجینئروں نے ایک ایسی نئی لیتھیم آئن بیٹری تیار کرلی ہے جو صرف دو منٹ میں 70 فیصد تک چارج ہوجاتی ہے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ اس بیٹری کو اسمارٹ فون سے لے کر بجلی سے چلنے والی کاروں (الیکٹرک کارز) تک کےلیے ضرورت کے حساب سے چھوٹا یا بڑا بنایا جاسکتا ہے۔

مزید یہ کہ اس میں دس ہزار مرتبہ تک چارج/ ڈسچارج سائیکلز جھیلنے کی صلاحیت بھی ہے۔ یعنی اگر آپ دن میں پانچ مرتبہ بھی اس کی چارجنگ کریں گے، تب بھی یہ ساڑھے پانچ سال تو آرام سے نکال لے گی۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ یہ پاکستان میں وولٹیج کے جھٹکوں کو برداشت کرسکے گی یا نہیں۔ بہرحال اس کی یہ صلاحیت، مارکیٹ میں دستیاب دوسری لیتھیم آئن بیٹریوں کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ ہے۔

اس نئی بیٹری کے بارے میں دو اچھی خبریں اور ہیں: پہلی یہ کہ اسے صنعتی پیمانے پر تیار کرنے کےلیے وہی مشینیں اور فیکٹریاں کافی ہوں گی جو آج کل اسمارٹ فون بیٹریز بنانے میں استعمال ہوتی ہیں؛ اور دوسری یہ کہ اگلے چند سال تک یہ بیٹری مارکیٹ میں دستیاب بھی ہوگی۔ لیکن ابھی اس کی قیمت طے نہیں کی گئی ہے۔ البتہ میرا اپنا اندازہ ہے کہ شروع شروع میں یہ دوسری اسمارٹ فون بیٹریوں سے ذرا مہنگی ہوگی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت بھی کم ہوتی چلی جائے گی۔ ارے بھئی! اسی کو تو Trickle Down Effect کہتے ہیں۔

صرف موبائل انڈسٹری ہی کو نہیں بلکہ بجلی بھری کاریں (الیکٹرک کارز) بنانے والی کمپنیوں کو بھی اس بیٹری کا شدت سے انتظار ہے۔ اسمارٹ فون اور بجلی سے چلنے والی کاروں کا مسئلہ بالکل ایک ہے: دونوں کی بیٹریاں چارج ہونے میں بہت وقت لگاتی ہیں۔ الیکٹرک کاروں کے اب تک مقبول نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ان کی بیٹریوں کو پوری طرح چارج ہونے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ چارجنگ پوری ہوجانے کے بعد یہ گاڑیاں 100 سے 150 کلومیٹر تک کا سفر کرسکتی ہیں۔ تین سال پہلے مٹسوبشی کی i-MiEV الیکٹرک کار نے ایک ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران، شہر میں چلانے پر ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔

یعنی اگر یہ بیٹری آگئی اور الیکٹرک کاروں کےلیے کمرشلائز بھی ہوگئی تو امید کی جاسکتی ہے کہ پیٹرول پمپ کی طرح ’’الیکٹرک پمپ‘‘ بھی بننے لگیں گے جہاں کاروں کی بیٹریاں، منٹوں میں چارج کی جاسکیں گی۔ پاکستان میں نہ سہی لیکن امریکہ، انگلینڈ اور جاپان وغیرہ میں شاید یہ خواب پورا ہوجائے۔

آخر میں تھوڑی سی ٹیکنیکل بات۔ لیتھیم آئن بیٹریوں میں اینوڈ کے طور پر گریفائٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن این ٹی یو کے انجینئروں نے اس کی جگہ ٹیٹانیئم ڈائی آکسائیڈ نینوٹیوبز والے، جیلی جیسے مادّے (gel) پر مشتمل اینوڈ استعمال کیا ہے... اور اس پوری کہانی میں اصل خبر بھی یہی ہے۔

ٹیٹانیئم ڈائی آکسائیڈ اگرچہ بہت سستا ہے اور ’’ٹیٹانیا‘‘ کے نام سے بہ آسانی مل بھی جاتا ہے، لیکن پہلے اس سے نینوٹیوبز (یعنی نینومیٹر جسامت والی نلکیاں) بنانا اور پھر ان نینوٹیوبز کو ایک جیلی دار مادّے کی شکل میں لاکر بیٹری اینوڈ کی حیثیت سے استعمال کرنا، یہ واقعی بہت مشکل کام ہے۔ ایسے ہی کاموں کو ’’ٹیڑھی کھیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن این ٹی یو کے انجینئروں کو سلیوٹ کہ جنہوں نے آخرکار یہ ٹیڑھی کھیر، سیدھی کر ہی لی۔
 

Silent_lyf

Heart's Raaz
TM Star
Sep 20, 2013
4,932
2,021
713

سائنسدانوں نے بیٹریوں کے آہستہ چارج ہونے کا حل ایسی بیٹری کی صورت میں نکالا ہے جو دو منٹ میں 70 فیصد چارج ہوسکتی ہے rootfun,net

ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ کبھی نہ کبھی ایسا ضرور ہوا ہوگا: گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ یا بریک ڈائون میں بیچارے موبائل فون کی بیٹری بھی ڈائون ہوگئی اور بجلی آتے ہی موبائل فون چارجنگ پر لگادیا۔ ابھی دس منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ بجلی پھر سے چلی گئی اور... آگے کا قصہ آپ خود ہی جانتے ہوں گے۔

اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کا معاملہ تو اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ ہنساتے کم اور رلاتے زیادہ ہیں۔ دیر سے چارج ہوتے ہیں اور جلدی ڈسچارج ہوجاتے ہیں۔ کچھ اور ساتھ میں ہو یا نہ ہو، چارجر ضرور ساتھ رکھنا پڑتا ہے کہ نہ جانے کس گلی میں ’’موبائل کی بیٹری ڈائون‘‘ ہوجائے۔

خیر! چارجنگ کے ماروں، بے چاروں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اب سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی (این ٹی یو) کے انجینئروں نے ایک ایسی نئی لیتھیم آئن بیٹری تیار کرلی ہے جو صرف دو منٹ میں 70 فیصد تک چارج ہوجاتی ہے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ اس بیٹری کو اسمارٹ فون سے لے کر بجلی سے چلنے والی کاروں (الیکٹرک کارز) تک کےلیے ضرورت کے حساب سے چھوٹا یا بڑا بنایا جاسکتا ہے۔

مزید یہ کہ اس میں دس ہزار مرتبہ تک چارج/ ڈسچارج سائیکلز جھیلنے کی صلاحیت بھی ہے۔ یعنی اگر آپ دن میں پانچ مرتبہ بھی اس کی چارجنگ کریں گے، تب بھی یہ ساڑھے پانچ سال تو آرام سے نکال لے گی۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ یہ پاکستان میں وولٹیج کے جھٹکوں کو برداشت کرسکے گی یا نہیں۔ بہرحال اس کی یہ صلاحیت، مارکیٹ میں دستیاب دوسری لیتھیم آئن بیٹریوں کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ ہے۔

اس نئی بیٹری کے بارے میں دو اچھی خبریں اور ہیں: پہلی یہ کہ اسے صنعتی پیمانے پر تیار کرنے کےلیے وہی مشینیں اور فیکٹریاں کافی ہوں گی جو آج کل اسمارٹ فون بیٹریز بنانے میں استعمال ہوتی ہیں؛ اور دوسری یہ کہ اگلے چند سال تک یہ بیٹری مارکیٹ میں دستیاب بھی ہوگی۔ لیکن ابھی اس کی قیمت طے نہیں کی گئی ہے۔ البتہ میرا اپنا اندازہ ہے کہ شروع شروع میں یہ دوسری اسمارٹ فون بیٹریوں سے ذرا مہنگی ہوگی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت بھی کم ہوتی چلی جائے گی۔ ارے بھئی! اسی کو تو Trickle Down Effect کہتے ہیں۔

صرف موبائل انڈسٹری ہی کو نہیں بلکہ بجلی بھری کاریں (الیکٹرک کارز) بنانے والی کمپنیوں کو بھی اس بیٹری کا شدت سے انتظار ہے۔ اسمارٹ فون اور بجلی سے چلنے والی کاروں کا مسئلہ بالکل ایک ہے: دونوں کی بیٹریاں چارج ہونے میں بہت وقت لگاتی ہیں۔ الیکٹرک کاروں کے اب تک مقبول نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ان کی بیٹریوں کو پوری طرح چارج ہونے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ چارجنگ پوری ہوجانے کے بعد یہ گاڑیاں 100 سے 150 کلومیٹر تک کا سفر کرسکتی ہیں۔ تین سال پہلے مٹسوبشی کی i-MiEV الیکٹرک کار نے ایک ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران، شہر میں چلانے پر ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔

یعنی اگر یہ بیٹری آگئی اور الیکٹرک کاروں کےلیے کمرشلائز بھی ہوگئی تو امید کی جاسکتی ہے کہ پیٹرول پمپ کی طرح ’’الیکٹرک پمپ‘‘ بھی بننے لگیں گے جہاں کاروں کی بیٹریاں، منٹوں میں چارج کی جاسکیں گی۔ پاکستان میں نہ سہی لیکن امریکہ، انگلینڈ اور جاپان وغیرہ میں شاید یہ خواب پورا ہوجائے۔

آخر میں تھوڑی سی ٹیکنیکل بات۔ لیتھیم آئن بیٹریوں میں اینوڈ کے طور پر گریفائٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن این ٹی یو کے انجینئروں نے اس کی جگہ ٹیٹانیئم ڈائی آکسائیڈ نینوٹیوبز والے، جیلی جیسے مادّے (gel) پر مشتمل اینوڈ استعمال کیا ہے... اور اس پوری کہانی میں اصل خبر بھی یہی ہے۔

ٹیٹانیئم ڈائی آکسائیڈ اگرچہ بہت سستا ہے اور ’’ٹیٹانیا‘‘ کے نام سے بہ آسانی مل بھی جاتا ہے، لیکن پہلے اس سے نینوٹیوبز (یعنی نینومیٹر جسامت والی نلکیاں) بنانا اور پھر ان نینوٹیوبز کو ایک جیلی دار مادّے کی شکل میں لاکر بیٹری اینوڈ کی حیثیت سے استعمال کرنا، یہ واقعی بہت مشکل کام ہے۔ ایسے ہی کاموں کو ’’ٹیڑھی کھیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن این ٹی یو کے انجینئروں کو سلیوٹ کہ جنہوں نے آخرکار یہ ٹیڑھی کھیر، سیدھی کر ہی لی۔
Nice...keep rocking;-)
 
  • Like
Reactions: JUST LIKE ROZE
Top