بلاول نے کراچی جلسہ میں بار بار بھٹو ازم کی تکرار کی، جیسے وہ کوئی جادو کی چھڑی ہو، جو ان کو اقتدار دلا سکتی ہے- جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو ازم ایک چلا ہوا کارتوس جو ان کی زندگی میں ہی ٹھس ہوگیا تھا-
بھٹو صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے ’’غریبوں کے حق میں انقلاب‘‘ لانے کا وعدہ دہراتے رہتے تھے اور مفلوک الحال لوگوں کو تاثر دیا کرتے تھے کہ وہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیں گے
پاکستان دو لخت ہوا اور جناب بھٹو ’’نیا پاکستان‘‘ کے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر منتخب ہوئے تو اگر وہ چاہتے تو غریبوں کے حق میں انقلاب برپا کر سکتے تھے۔ پلیکن انہوں نے MIXED ECONNMY (مخلوط معیشت) رائج کر دی۔ انہوں نے فسطائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم کو (وفاقی وزیر کی حیثیت سے) ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ایف ایس ایف کے اہلکاروں سے پٹوایا گیا۔ جناب مختار رانا کو سویلین مارشل لاء کے تحت 4 سال کی قید بامشقت دلوا کرانہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کیا گیا۔ معراج محمد خان اورحنیف رامے کو 4/4 سال کے لئے جیل بھجوایا گیا اور مزدوروں کا فائرنگ کرکے انہیں قتل کیا گیا کیا یہ ’’بھٹو ازم‘‘ ہی تھا؟
کیا یہ بھی ’’بھٹو ازم‘‘ ہی تھا کہ جب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو‘ نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ہوئے تو انہوں نے ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ کا رہنما اصول نظرانداز کیا اور اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کر دیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے شفقت مادری سے مغلوب ہو کر محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی ’’شریک چیئرپرسن‘‘ مقرر کر دیا جبکہ پارٹی کے دستور میں شریک چیئرپرسن کا کوئی عہدہ ہی نہیں تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور دسمبر 1995ء میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے 33 ارکان کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں طلب کیا۔ بیگم بھٹو کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان نے ’’متفقہ طور پر‘‘ بیگم نصرت بھٹو کو برطرف کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو کو چیئرپرسن ’’منتخب‘‘ کر لیا۔ یہ سب ’’بھٹو ازم‘‘ کے تحت ہوا۔
’’بھٹو ازم‘‘ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں کبھی انتخابات ہی نہیں ہوئے۔ پہلے اوپر سے لے کر نیچے تک ہر عہدے پر جناب بھٹو نامزدگیاں کرتے تھے‘ ان کے بعد بیگم نصرت بھٹو پھر محترمہ بے نظیر بھٹو۔ عجیب بات ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر نامدار کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دیا۔ یہ بھٹو ازم تھا یا زرداری ازم؟ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کی ایک ایسی وصیت برآمد کر لی گئی جس کے تحت جناب زرداری نے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو ’’بھٹو‘‘ کا خطاب دے کر پارٹی کا چیئرمین نامزد کر دیا اور خود شریک چیئرمین ’’منتخب‘‘ ہو گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو انفرادی ملکیت کی حیثیت سے چلایا جا رہا ہے۔ یعنی کل بھی بھٹو زندہ تھا۔ آج بھی بھٹو زندہ ہے؟