بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
دوستوں اکثر لوگ بدعتوں کے جواز میں یہ حدیث پاک پیش فرماتے ہیں:
"
جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا اسکو خود بھی ثواب ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کا ثواب بھی اسکو ملتا رہے گا اور جس نے دین میں برا طریقہ نکالا تو اسکو نہ صرف اسکا گناہ بلکہ جو بعد میں اس (برے) عمل کو کرے گا اسکا بھی گناہ اسے ملے گا"
(مسلم شریف کتاب الزکوۃ، ابن ماجہ، مشکوۃ شریف باب العلم ص 33
اس حدیث پاک سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اچھا طریقہ ایجاد کرنے پر ثواب ہے اور یہی بدعت حسنہ ہے
بدعتوں کے جواز میں لوگوں کا اس حدیث سے استدلال غلط ہے :
اول اس لئے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیئے مشکوۃ جلد 1 ص 30)اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت (ملاحظہ ہو ہامش مشکوۃ ج 1 ص 30)اور حضرت غضیف بن الحارث رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیے مشکوۃ ج 1 ص 31)کی روایتوں میں اس امر کی تصریح موجود ہے کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’من تمسک بسنتی‘‘یعنی جس نے میری سنت سے تمسک کیا اور مضبوطی سے اس کو پکڑا .اور فرمایا کہ ’’من فتمسک بسنتہ خیر‘‘الخ یعنی میری سنت سے تمسک کرنا بہتر ہے .
ان روایات سے معلوم ہوا کہ امتی کا کام سنت پر چلنا ہے اس سے تمسک کرنا ہے .سنت جاری کرنا امتی کا کام نہیں .
رہا حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اور خیرالقرون کا معاملہ وہ اس بحث سے خارج ہیں
ملاحظہ فرمائیں:
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میرے بعد زندہ رہا وہ بہت ہی زیادہ اختلاف دیکھے گا .سو تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے خلفاءراشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں مضبوط پکڑو اور اپنی ڈاڑھوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو ،کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ‘‘
(ترمذی ج 2 ص 92 )(ابن ماجہ ص 5)(ابو داود ج 2 ص279)(مسند دارمی ص26)(مسند احمد ج 4 ص 27)(مستدرک ج 1 ص 95)
ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:
اہل سنت والجماعت یہ فرماتے ہیں کہ جو قول اور فعل جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سے ثابت نہ ہوں تو اس کا کرنا بدعت ہے کیوں کہ اگر وہ کام اچھا ہوتا تو ضرور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین ہم سے پہلے اس کام کو کرتے .اس لئے انہوں نے نیکی کے کسی پہلو اور کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنہ عمل نہیں چھوڑا بلکہ وہ ہر کام میں گوئے سبقت لے گئے ہیں ‘‘
(تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 156)
اور خیر القرون کا تعامل بھی حجت ہے
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے بعد تابعین کرام اور تبع تابعین کرام کی اکثریت کا کسی کام کو بلا نکیر کرنا یا چھوڑنا بھی حجت شرعی ہے اور ہمیں ان کی پیروی ضروری ہے .اس کے ثبوت میں بھی متعدد حدیثین موجود ہیں
ہم اختصار کے ساتھ دواحادیث پیش کررہے ہیں
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی 32 ھ)سے روایت ہے :
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں پھر ان کے بعد والے اور پھر ان کے بعد والے پھر ایسی قومیں آئیں گی جن کی شہادتیں قسم سے اور قسم شہادت اور گواہی سے سبقت کرے گی‘‘
(بخاری ج 1 ص 362) (مسلم ج 2 ص 309)
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ اُن کے نقش قدم پر چلنا)پھر ان کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر اُن کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر جھوٹ عام ہوجائے گا کہ آدمی بلا قسم دیئے بھی قسم اٹھائیں گے اور بلا گواہی طلب کئے بھی گواہی دیں گے سو جو شخص جنت کے وسط میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس جماعت کا ساتھ نہ چھوڑے ‘‘(مسند ابو داود طیالسی ص 7 )(مستدرک ج 1 ص114)قال الحاکم والذھبی علیٰ شرطھما،مثلہ فی المشکوۃ ج 2 ص 554 )وفی المرقات راوہ نسائی و اسناد صحیح و موارد الظمآن ص 56
ان صحیح روایات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون کے بعد جو لوگ پیدا ہوں گے ،اُن میں دین کی وہ قدر و عظمت نہ ہوگی جو خیر القرون میں تھی .جھوٹ ان بعد میں آنے والوں میں بکثرت رائج ہوجائے گا .بات بات پر بلا طلب کئے قسم اٹھاتے پھریں گے اور بے تحاشہ گواہی دیں گے .
اور لوگوں کے اس غلط استدلال کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اسی روایت میں ’’من سن فی الاسلام ‘‘کے بجائے یہ الفاظ بھی آئے ہیں ’’ایما داع الیٰ ھدیٰ ‘‘کہ جس داعی نے ہدایت کی طرف دعوت دی (مسلم ج 2 ص 341))(ابن ماجہ ص 19 )(مجمع الزوائد ج 1 ص 168)
اسی روایت کے دوسرے طریق پر ہے :
’’جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہوچکی تھی‘‘(ابن ماجہ ص 19)(ترمذی ج 2 ص 92)(مشکوۃ ج 1 ص 30)
ایک روایت میں یوں آتا ہے :
’’جس نے میری سنتوں میں سے کوئی سنت زندہ کی کہ لوگ اس پر عمل پیرا ہوئے ‘‘(ابن ماجہ ص 19)
نیز فرمایا :
کہ جو شخص کسی اچھے راستے پر چلا ‘‘(ابن ماجہ ص 19)
ایک روایت میں ہے :
’’جس نے کوئی علم سیکھایا تو اس کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا عمل کرنے والے کو اس کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی ‘‘(ابن ماجہ ص 21)
ان روایات سے لوگوں کی طرف سے بدعت کے جواز میں پیش کی گئی اس مجمل روایت کی تفصیل اور تشریح ہوجاتی ہے کہ سنت اور طریقہ کا جاری کرنا مراد نہیں بلکہ اس کی طرف دعوت دینا ،اس کی تعلیم دینا ،کسی سنت کو زندہ کرنا ،اور اس پر خود بھی عمل کرنا اور لوگوں کو بھی عمل کی تلقلین کرنا مراد ہے .
اس سے یہ مطلب سمجھنا اور مراد لینا کہ از خود کوئی طریقہ جاری کرنا یقینا غلط ہے.
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے. آمین